”گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر“

ہنگامہ¿ ہائے جہاں روز افزوں ہے۔ ایک سفر ہے کہ اختتام ہی نہیں۔ ایک کام ہے کہ جس کا انجام ہی نہیں۔ کہ آ رہی ہے برابر صدائے کن فیکون۔ زندگی برق رفتاری سے اپنی دلکشی و رعنائی و حسن سمیت محو خیال گردش ہے۔ سائنسی ترقی نے انسان کو تسخیر کائنات کے لامتناہی سفر پر روانہ کر دیا ہے لیکن انسان خود اپنے اخلاق‘ کردار و خیال میں بہتری پر آمادہ نہیں ہو سکا ہے۔ آج بھی انسان کو اپنے جیسے انسان ہی کے حسد‘ بغض‘ نفرت‘ ظلم‘ زیادتی‘ انتقام‘ دھوکہ او بے ایمانی سے سخت ترین خطرہ درپیش ہے۔ کرپشن کی داستانوں نے ہر ملک‘ ہر قوم کے انسانوں کو گھیر رکھا ہے۔ کون سا ایسا بااثر شخص ہے جس کی آف شور کمپنی نہیں۔ ٹیکس چوری پر ہر شخص آمادہ ہے۔ کیا ٹیکس چور کو محب وطن گردانا جا سکتا ہے۔ ٹیکس چوری جیسا کلچر جب انسانی معاشرہ کا سب سے بڑا بدنما داغ بن جائے تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ وقت آنے پر یہ لوگ قوم و ملک کے لئے کچھ بھی قربان کر سکیں گے۔ ایسا لگتا ہے ہر شخص صرف روپے‘ پیسے‘ دولت‘ جائیداد یا صرف اثرو رسوخ سے محبت کرتا ہے۔ کسی میں بھی خوف خدا کا کوئی بھی ذرہ برابر احساس موجود نہیں۔ غضب یہ ہے کہ یہ تمام کرپشن‘ بے ایمانی‘ ٹیکس چوری کرنے والے سب کے سب پڑھے لکھے‘ کاروباری‘ سرمایہ دار یا کسی نہ کسی حوالے سے سیاست یا کاروبار حکومت کا حصہ لوگ ہیں۔ جن کو اپنے اپنے مقام پر اپنے اپنے ملک و قوم میں اپنی اپنی قوم یا اپنے اپنے ملک کی تعمیر کا دعویٰ بھی ہے۔ سب ہی اہم ترین عہدوں پر رہے ہیں یا موجود ہیں‘ یا مستقبل قریب و بعید میں ان سب کی اپنے اپنے ملک یا اپنی اپنی قوم کی تعمیر میں لازمی حصہ بھی ہونا چاہیے۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دنیا کا مستقبل چوروں کے ہاتھوں میں آ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی میں بھی یہ لوگ اسی طرح کے طرز عمل کا شکار رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کی جمع شدہ ساری دولت‘ جائیداد‘ اثرو رسوخ سب کچھ مشکوک ہو جاتا ہے۔ اگر یہ شک واقعی شک نہ ہو بلکہ عین حقیقت ہو تو پھر ان کا احتساب کون کرے گا۔ دنیا کا کوئی ایک بھی قانون ایسا نہیں کہ جس پر عمل درآمد کرانے کے لئے باقاعدہ کوئی ادارہ موجود ہو۔ یا کوئی ایک بھی ادارہ دنیا میں ایسا نہیں جس پر یہ بااثر لوگ اثر پذیری کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ ایسی صورتحال میں پوری دنیا حالت سقر میں ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ پھر یہ جو مظلوم غریب‘ غربائ‘ مسکین‘ قانع‘ صابر لوگ ہیں۔ یہ کس مد میں دنیا بھر کی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ جب دنیاوی اعتبار سے کامیاب سارے چالاک‘ ہوشیار‘ فراڈی‘ چور اچکے ہیں تو پھر ایمانداری لوگ کیوں برتیں‘ نیکی کیوں اختیار کریں‘ بھلائی کس لئے اور کس کے لئے سرانجام دیں۔ انبیائ‘ اولیائ‘ صالحین اور سب سے بڑھ کر پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی ذات والٰہ صفات کی تعلیمات کس حوالے سے معتبر ٹھہریں گی۔ ادیان و اقدار و روایات و نصائع کیا معنی رکھیں گی۔ اگر اہل ایمان کہلانے والے ہی اپنے عمل سے خود کو بدعنوان ثابت کر دینے پر تلے ہوئے ہیں اور صرف سیاست کی خاطر اپنی آخرت کی تمام تر بھلائیوں کو دا¶ پر لگا دینے میں کامیابی تلاش کر رہے ہوں۔
ملک خداداد پاکستان میں سیاست سے وابستہ اشرافیہ پر جائز و ناجائز طریقہ سے ملک میں جاری نظام ہائے زیست کو تہہ و بالا کرنے میں خود کو حق بجانب تصور کرتی ہے۔ آئے روز اخبارات میں اس بابت بہت سی خبریں زیب داستان ہی نہیں ہوتیں بلکہ اصل حقیقت سے بہت کم خرابیاں اور سنجیدگی لئے ہوئے ہوتی ہیں۔ عملاً تھانوں‘ عدالتوں‘ دیگر اداروں میں ان لوگوں کا اثرو رسوخ تمام تر انسانی اقدار و روایات کا منہ چڑاتا ہوا معلوم ہوتا ہے جبکہ ان لوگوں کے خلاف کوئی ایک بھی ادارہ نہیں جہاں کوئی اپیل کی جا سکے۔ صرف ان کے حضور ہی عرض و نیاز درخواست نما صدائے رحم بلند کی جا سکتی ہے جسے یہ کبھی بھی شرف قبولیت نہیں بخشتے‘ ان کے درباروں میں صرف ظالموں کی سنی جاتی ہے۔ نیب بیچاری کیا کرے؟ اینٹی کرپشن بیچاری کیا کرے؟ ان کے سامنے تو وہ لوگ بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں جن کے ذمے دین محمدی صلی اللہ علیہ آلہ وسم کی امانت آتی ہے۔ جو ان سمیت سب مسلمانوں کو سیدھی راہ پر ”قائم“ رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ گیسوئے تابدار کو یہی لوگ اور بھی تابدار بنا رہے ہیں۔ یہ ہوش و خرد کے شکاری ہیں۔ یہ قلب و نظر کے شکاری ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہر نیکی‘ ہر سچائی‘ ہر اچھائی کو شکار کر لیا ہے۔ یہ ہی شکاری ہیں‘ حسن و عشق کے تمام قصے ان صاحبان حرص و ہوس کے سامنے زانوئے شاگردی تہہ کئے ہوئے ہیں۔ ان کے جذبات کا عفریت زندگی کے تمام حسن کو نگل جانے پر تیار ہے۔ کوئی ہے جو انسانی حرص‘ ہوس زر‘ ہوس اقتدار‘ انتقام‘ فراڈ‘ ٹیکس چوری سے تمام اخلاقی اقدار و روایات کے حسن بے مثال کو آزاد کرائے۔ انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلانے کا سامان کرنے میں اپنی نجات سمجھے ۔ ”قیامت ہے کہ انسان‘ نوع انسان کا شکاری ہے“
ایسی گھمبیر صورتحال میں ہر خاص و عام کو اسلام کی بتائی ہوئی ان تمام اعلیٰ ترین تعلیمات و اخلاقیات و روایات کی طرف توبہ کرنے کی ضرورت ہے جو انسانوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جو انسانوں کو کرپشن‘ بددیانتی‘ بدعنوانی‘ جھوٹ‘ فراڈ‘ پریشانی‘ دکھ اور تمام بیماریوں کے دائرے سے نکال کر شفائ‘ نیکی‘ ایمانداری‘ سچائی اور اعلیٰ ترین اخلاقیات و روایات و تعلیمات پر لا سکتی ہے۔ کیا آج پوری دنیا کے سامنے اعلیٰ ترین اخلاقیات کے حامل فریب کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں؟ ضرور ہے اور اس کے لئے سب سے پہلے سی این این‘ بی بی سی ٹائپ اسلامی چینل کے قیام کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ایسا م¶ثر چینل‘ میڈیا اسلامی تعلیمات کی اصل روح کو عالم انسانیت کے سامنے پیش کرنے والا ذریعہ جو ہر طرف اسلامی تعلیمات کی روحانیت ثابت کر دے اور دنیا اسلام کے سچ کے سامنے اپنی تمام تر خرابیوں کو چھوڑ دینے کے لئے تیار ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن