یہ علامہ اقبال کے ”افغان باقی‘ کہسار باقی‘ الحکم اللہ‘ الملک اللہ“ کے فلسفہ کی جیت ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان مسئلہ کے حل کیلئے مشترکہ کوششوں کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے مثبت جواب کی تعریف کی ہے۔ اس سلسلہ میں وزارت خارجہ کے سینئر حکام نے گزشتہ روز انگریزی اخبار ”دی نیشن“ کو بتایا کہ ٹرمپ نے امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان و افغانستان زلمے خلیل زاد کے دورہ¿ پاکستان پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق امریکی سفارت کاروں نے بتایا کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور وزیراعظم عمران خان کے مثبت ردعمل کو سراہا ہے۔ ایک اور امریکی سفارت کار نے بتایا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے زلمے خلیل زاد نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران انہیں صدر ٹرمپ کی طرف سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایاہے۔ دوران ملاقات زلمے خلیل زاد نے وزیراعظم عمران خان کو بتایا کہ امریکی قیادت افغان مسئلہ کے پرامن حل کیلئے پاکستان سے باہمی تعاون بڑھانا چاہتی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن اور مصالحت کیلئے سیاسی حل کا حامی ہے اور خطے میں امن کیلئے وہ خود بھی طویل عرصے سے پرعزم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے خط میں مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے مل کر کام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے جس کا وہ خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے مابین مسلسل رابطوں کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ تجارت‘ سرمایہ کاری‘ تعلیم‘ صحت سمیت سوشل سیکٹر میں باہمی رابطے بڑھانا ضروری ہیں۔ اس پر زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکی حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔ انکے بقول افغان امن اور مشترکہ مقاصد کیلئے دونوں ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان مفاہمتی عمل کے ذریعے افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ وطن پرستی سے سرشار غیور افغانوں کو آج تک دنیا کی کوئی طاقت انکی سرزمین پر زیر نہیں کر سکی۔ اس حوالے سے ان کا ماضی بھی اپنی سرزمین کے تحفظ کے معاملہ میں تابناک ہے اور انہوں نے امریکی نائن الیون کے بعد نیٹو فورسز کی جانب سے افغان دھرتی پر شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں بھی ان فورسز کو مسلسل 12 سال تک تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور انکے قدم اپنی دھرتی پر جمنے نہیں دیئے۔ چنانچہ امریکی نیٹو فورسز کو ہی مزید جانی اور مالی نقصان سے بچنے کیلئے افغانستان سے واپس جانا پڑا۔ بصورت دیگر نیٹو فورسز کی مزاحمت کرنیوالے افغان باشندے اپنی دھرتی کو ان کا قبرستان بنانے کیلئے پرعزم نظر آتے تھے۔ یہی افغان باشندے 70ءکی دہائی میں امریکہ کی آنکھ کا تارا تھے اور واشنگٹن انتظامیہ اپنے مفادات کی خاطر انکی سرپرستی اور فنڈنگ کرتی اور انہیں علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے استعمال کرتی۔ انہی افغان باشندوں کو امریکہ نے مجاہدین کے طور پر گوریلا جنگ کیلئے تربیت دیکر سوویت یونین کیخلاف شروع کی گئی اپنی سرد جنگ میں استعمال کیا جس میں پاکستان نے بھی نمایاں کردار ادا کیا اور اس وقت کے فوجی سربراہ حکومت جنرل ضیاءالحق نے افغان مجاہدین کو گوریلا جنگ کیلئے تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کیں اور اس جنگ میں بے گھر ہونیوالے لاکھوں افغان مہاجرین کو بھی صوبہ سرحد میں پناہ دی جبکہ افغان مجاہدین نے اپنے شاندار ماضی کی روایات کو برقرار رکھے ہوئے سوویت فوجوں کو اپنی سرزمین پر گھیر گھیر کر مارنا شروع کر دیا۔ مسلسل تین سال تک جاری رہنے والی اس گوریلا جنگ میں بالآخر امریکہ کو کامیابی حاصل ہوئی اور اس وقت کے سوویت صدر گورباچوف گلاسنوسٹ کی پالیسی اختیار کرکے سوویت ریاستوں کو آزادی دینے پر مجبور ہوگئے۔ امریکہ کی اس سرخروئی میں تمام کردار افغان مجاہدین اور پاکستان کا تھا مگر امریکہ نے یہ سرد جنگ جیتنے کے بعد افغان مجاہدین کی سرپرستی ترک کردی جس کے بعد ہتھیار اٹھانے کے عادی افغان مجاہدین انتہاءپسندی اور دہشت گردی کے راستے پر نکلے اور طالبان کے روپ میں ایک نئی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آگئے جنہیں نائن الیون کے بعد واشنگٹن انتظامیہ نے اپنے نشانے پر رکھ لیا اور افغانستان کو فتح کرنے کیلئے نیٹو فورسز کی خدمات حاصل کرلیں۔
افغان جنگ شروع کرتے وقت اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے اس جنگ کو کروسیڈ کا نام دیا‘ اس طرح انہوں نے خود ہی اس جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ بنادیا۔ ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ ہمارے اس وقت کے کمانڈو جرنیلی آمر پرویز مشرف نے امریکہ کی محض ایک ٹیلی فونک کال پر ڈھیر ہو کر پاکستان کو افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی بنا دیا اور نیٹو فورسز کو افغانستان تک راہداری اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے علاوہ پاکستان کے تین ایئربیسز بھی امریکہ کے حوالے کردیئے جہاں سے نیٹو فورسز کے جہاز اڑان بھر کر افغان دھرتی پر بم برساتے رہے۔ چنانچہ طالبان انتہاءپسندوں نے ردعمل میں پاکستان کے اندر بھی خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کرکے ہمیں ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ افغان جنگ میں نیٹو فورسز نے کارپٹ بمباری اور کیمیکل ہتھیاروں کا استعمال کرکے افغانستان کا تورابورا بنادیا جس میں ایک لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کا قتل عام ہوا مگر اسکے باوجود وہ غیور افغان باشندوں کو مزاحمت سے نہ روک سکے جنہوں نے اپنی سرزمین پر نیٹو فورسز کے قدم جمنے ہی نہ دیئے‘ امریکی عسکری و دفاعی ماہرین خود اس امر کا اعتراف کرچکے ہیں کہ امریکہ کو جتنا جانی اور مالی نقصان افغان جنگ میں اٹھانا پڑا‘ اتنا نقصان اسے ویت نام کی جنگ میں بھی نہیں ہوا۔
اس خطے کے مورخین تو اسی ناطے سے افغانستان کو اسلام کا مضبوط قلعہ قرار دیتے رہے ہیں اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی یادگار شاعری میں جابجا غیور افغانیوں اور کہساروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ پختون شاعرخوشحال خان خٹک کو بھی اسی تناظر میں اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے۔ انکے مجموعہ ہائے کلام پیام مشرق‘ بال جبریل اور جاوید نامہ میں مکالموں کی شکل میں کئی طویل نظمیں غیور افغانوں کو اپنی نشاة ثانیہ کے احیاءکیلئے بیدار ہونے کا درس دیتی نظر آتی ہیں۔ اس وقت ہندوستان میں تعینات افغان سفیر صلاح الدین سلجوقی علامہ اقبال کو اپنی گہری عقیدت کے باعث مرشد کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ اسی ناطے سے علامہ اقبال نے اپنے مجموعہ¿ کلام ”پیام مشرق“ کو امیر افغانستان شاہ امان اللہ خان کے نام سے منسوب کیا جبکہ اپنے مجموعہ کلام ”ضرب کلیم“ کے آخر میں انہوں نے ”محراب گل افغان کے افکار“ کے عنوان سے اپنی طویل نظم شامل کی جس کے یہ اشعار پورے ہندوستان میں زبانِ زدعام ہوئے کہ....
رومی بدلے‘ شامی بدلے‘ بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزند کہستاں اپنی خودی پہچان
اس نظم میں اقبال نے نادرشاہ کی مزاحمت کر کے انکی فوجوں کو پسپا کرنیوالے افغانیوں کے عزم و استقلال‘ خودداری و عزت‘ جوش و عمل اور شجاعت پر انہیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ....
نادر نے لوٹی دلی کی دولت
ایک ضربِ شمشیر! افسانہ¿ کوتاہ
افغان باقی‘ کہسار باقی
الحکم اللہ‘ الملک اللہ
غیور افغانیوں کے اس عزم و استقلال کی بنیاد پر ہی نوائے وقت نے سوویت یونین کیخلاف امریکی سرد جنگ میں افغان مجاہدین کی حوصلہ افزائی کیلئے اپنا ایک صفحہ مختص کیا اور علامہ اقبال کے شعر ”افغان باقی‘ کہسار باقی‘ الحکم اللہ‘ الملک اللہ“ کو اس صفحے کا ٹائٹل بنایا جو آج بھی نوائے وقت کے اس صفحہ پر مزین ہے اور اس کا طرہ¿ امتیاز بن چکا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غیور افغانوں کو جنگ و جدل اور طاقت کے استعمال سے نہیں جیتا جا سکتا۔ سکندر اعظم سے نادر شاہ تک اور سوویت یونین سے امریکہ تک سب نے افغان دھرتی پر اپنے قدم جمانے کی کوشش کی اور سب کو یہاں منہ کی کھانا پڑی۔ امریکہ نے بے شک کروسیڈ کے نام پر افغانستان پر چڑھائی کی جس میں بے شک افغانیوں کو بیشتر مسلم ممالک کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے غیرت ملی کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور امریکہ سمیت پچاس ممالک کی نیٹو فورسز کو بھی پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس جنگ کے دوران بھی واشنگٹن انتظامیہ کو شدت سے احساس ہوچکا تھا کہ مزاحمت کار طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر ہی افغانستان میں امن کی کوئی راہ نکالی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اوبامہ کے دونوں ادوار حکومت میں جنگ کے ساتھ ساتھ طالبان کے مختلف گروپوں کے ساتھ سلسلہ¿ جنبانی بھی جاری رکھا گیا اور پھر نیٹو فورسز کو افغانستان سے محفوظ واپسی کا راستہ بھی بھی طالبان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعہ ہی ملا تھا۔
پاکستان خود بھی اس امر کا قائل رہا ہے کہ افغانیوں کے دل محبت کی زبان اور مذاکرات کے ذریعہ ہی جیتے جا سکتے ہیں چنانچہ اس مقصد کیلئے پاکستان نے افغان امن عمل کی خاطر ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کی داغ بیل ڈالی جس کے پلیٹ فارم پر امریکہ‘ روس‘ چین اور اس خطے کے دوسرے ممالک بھی مختلف افغان گروپوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے پیش رفت پر قائل ہوئے۔ بے شک بھارت نے اس فورم کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی مگر آج اسی فورم کی کاوشوں کے نتیجہ میں واشنگٹن اور خود کابل انتظامیہ افغانستان میں قیام امن کی خاطر طالبان لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر معاملات طے کرنے پر آمادہ ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے حالیہ دورہ¿ پاکستان سے‘ جس کے دوران انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ افغان امن عمل کو آگے بڑھانے اور منطقی انجام تک پہنچانے میں یقیناً مدد ملے گی۔ امریکی جنرل میکنزی تو یہ کہہ کر افغان جنگ میں ناکامی کا اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ افغان جنگ میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اگر امریکہ کو اس جنگ میں سوائے بھاری جانی اور مالی نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرنے کا خمیازہ ہمیں بھی بھاری جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں اٹھانا پڑا ہے جبکہ ہماری سکیورٹی فورسز آج بھی دہشت گردوں کیخلاف برسرپیکار ہیں اور یہ جنگ جیتنے کیلئے پرعزم ہیں جس کا اظہار گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران بھی کیا ہے تاہم طالبان کے ساتھ مذاکرات ہی افغان امن عمل کی کامیابی کی ضمانت بن سکتے ہیں جس کیلئے اب امریکہ اور خود افغانستان کی جانب سے بھی عملی پیش رفت ہورہی ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ افغان دھرتی پھر سے امن و آشتی کا گہوارہ بن جائیگی اور اسکی بنیاد پر ہمیں بھی دہشت گردی کے ناسور اور امریکی ڈومور کے تقاضوںسے خلاصی مل جائیگی۔ غیور افغانیوں کی ماضی کی تاریخ کے تناظر میں ان کیخلاف شروع دن سے ہی طاقت کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہیے تھا۔ انکے ہاتھوں اتنے بھاری نقصانات اٹھانے کے بعد بالآخر یہی راستہ اختیار کیا گیا ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق اب امریکہ کو طالبان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے اور پورے خلوص کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ پاکستان اس کیلئے جو بھی ممکنہ کردار ادا کر سکتا ہے‘ وہ ضرور بروئے کار لائے گا جس کیلئے وہ پہلے ہی امریکہ کی معاونت کرنے پر تیار ہے۔ اس سے یقیناً امریکہ‘ پاکستان کشیدگی کا بھی ازالہ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن