(تحریر: ہارون سبحانی)
شفاءالملک حکیم محمد حسن قرشیؒ کی بلند پایہ شخصیات میں سے تھے۔ ایک ماہر فن طبیب ہونے کے ساتھ علم و ادب کی دنیا میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے طب یونانی کی افادیت پردو درجن سے زائد کتابیں لکھیں جو طب کا گراں سرمایہ ہیں۔ خاص طور پرجامع الحکمت ان کا عظیم طبی شاہکار ہے ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن طب کی ترقی تھا مرحوم نے اپنی زندگی طب کی ترقی اور ترویج کے لئے وقف کیے رکھی۔ انہوں نے کئی قابل توصیف کتابیں تصنیف کیں جنہوں نے شمالی ہندوستان اور گردونواح کے وسیع علاقے میں طب یونانی کے احیاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے طب اسلامی کو ایک نیا رنگ و روپ اور نئی وضع بخشی جس سے اس کو وقار حاصل ہوا۔حکیم محمد حسن قرشیؒ ایک طبیب ہی نہیں بلکہ سالار طب تھے مطب بھی کرتے اور طیبہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے درس و تدریس کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے اس کے ساتھ ساتھ طب کے مختلف موضوعات پر تصنیف وتالیف میں بھی مصروف رہے وہ مدتوں سے ایک ماہر فن طبیب کی حیثیت سے مصروف ہیں اور انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ بھی زیادہ تر طب سے متلعق ہیں لیکن اس مضمون میں جو ان کے انداز نگارش کا ایک دلاویز نمونہ ہے، بڑے بڑے انشاءپروازوں اور ادیبوں سے آگے نظر آتے ہیں۔بمبئی میں قیام کے دوران مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی دیگر راہنماو¿ں سے جو مراسم قائم ہوئے تھے وہ لاہور آنے کے بعد بھی قائم رہے اور اس سلسلے میں اکثر مہر و ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید فرماتے ہیں کہ مولانا غلام رسول مہر حکیم صاحب کے قریبی دوستوں میں شامل تھے، جب کوئی تکلیف ہوتی، انہی کی طرف رجوع کرتے، علاج انہی سے کراتے وہ ہندو صحافت کے مقابلے میں اسلامی صحافت کو بھی مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، چنانچہ جب بھی کوئی نیا مسلم اخبار جاری ہوا۔ انہوں نے اس کی اسی طرح پذیرائی کی۔ ان کی عظمت مسلمہ ہے لیکن ان کی نیک نامی اور ہمہ گیری اصل میں ان آج ایسی دلاویز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی جس کی حیات کو ایک عہد، ایک تاریخ ایک ادارہ کہہ سکیں اور ایک ایسا انسان کہیں جو ماضی میں صداقت و امانت کا مجسمہ تھے، وہ ان کا آخری نمائندہ تھے اللہ تعالٰی ان کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔ آمین
شفاءالملک حکیم محمد حسن قرشیؒ
(تحریر: ہارون سبحانی)
شفاءالملک حکیم محمد حسن قرشیؒ کی بلند پایہ شخصیات میں سے تھے۔ ایک ماہر فن طبیب ہونے کے ساتھ علم و ادب کی دنیا میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے طب یونانی کی افادیت پردو درجن سے زائد کتابیں لکھیں جو طب کا گراں سرمایہ ہیں۔ خاص طور پرجامع الحکمت ان کا عظیم طبی شاہکار ہے ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن طب کی ترقی تھا مرحوم نے اپنی زندگی طب کی ترقی اور ترویج کے لئے وقف کیے رکھی۔ انہوں نے کئی قابل توصیف کتابیں تصنیف کیں جنہوں نے شمالی ہندوستان اور گردونواح کے وسیع علاقے میں طب یونانی کے احیاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے طب اسلامی کو ایک نیا رنگ و روپ اور نئی وضع بخشی جس سے اس کو وقار حاصل ہوا۔حکیم محمد حسن قرشیؒ ایک طبیب ہی نہیں بلکہ سالار طب تھے مطب بھی کرتے اور طیبہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے درس و تدریس کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے اس کے ساتھ ساتھ طب کے مختلف موضوعات پر تصنیف وتالیف میں بھی مصروف رہے وہ مدتوں سے ایک ماہر فن طبیب کی حیثیت سے مصروف ہیں اور انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں وہ بھی زیادہ تر طب سے متلعق ہیں لیکن اس مضمون میں جو ان کے انداز نگارش کا ایک دلاویز نمونہ ہے، بڑے بڑے انشاءپروازوں اور ادیبوں سے آگے نظر آتے ہیں۔بمبئی میں قیام کے دوران مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی دیگر راہنماو¿ں سے جو مراسم قائم ہوئے تھے وہ لاہور آنے کے بعد بھی قائم رہے اور اس سلسلے میں اکثر مہر و ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔
ڈاکٹر عبدالسلام خورشید فرماتے ہیں کہ مولانا غلام رسول مہر حکیم صاحب کے قریبی دوستوں میں شامل تھے، جب کوئی تکلیف ہوتی، انہی کی طرف رجوع کرتے، علاج انہی سے کراتے وہ ہندو صحافت کے مقابلے میں اسلامی صحافت کو بھی مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، چنانچہ جب بھی کوئی نیا مسلم اخبار جاری ہوا۔ انہوں نے اس کی اسی طرح پذیرائی کی۔ ان کی عظمت مسلمہ ہے لیکن ان کی نیک نامی اور ہمہ گیری اصل میں ان آج ایسی دلاویز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی جس کی حیات کو ایک عہد، ایک تاریخ ایک ادارہ کہہ سکیں اور ایک ایسا انسان کہیں جو ماضی میں صداقت و امانت کا مجسمہ تھے، وہ ان کا آخری نمائندہ تھے اللہ تعالٰی ان کے درجات میں بلندی عطا فرمائے۔ آمین