حکومت اپوزیشن کے کشیدہ تعلقات ، پارلیمنٹ کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے

موجودہ پارلیمنٹ کا یہ المیہ ہے شروع دن سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’کشیدہ تعلقات کا ر‘‘ کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ قائد ایوان عمران خان اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کے درمیان اس حد تک ’’کشیدہ تعلقات کار‘‘ ہیں کہ پچھلے سوا سال کے دوران دونوں نے ایوان میں ایک دوسرے سے دو قدم کے فاصلے پر بیٹھے ہونے کے باوجود ’’مصافحہ‘ تو درکنار ایک دوسرے سے ’’علیک سلیک‘‘ نہیں کی۔ وزیر اعظم عمران خان برملا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن جسے وہ ’’چور ڈاکو‘‘ سمجھتے ہیںدیکھانا چاہتے اس لئے وہ اس کی طرف ’’دوستی‘‘ کا ہاتھ نہیں بڑھاتے دوسری طرف اپوزیشن جو موجودہ پارلیمنٹ کو ہی غیر نمائندہ سمجھتی ہے وزیر اعظم عمران خان کو پارلیمان سے خطاب نہیں کرنے دیتی وہ جب بھی ایوان میں آتے ہیں انہیں اپوزیشن کے ’’شور شرابہ‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا انہوں نے ’’ معاندانہ ماحول ‘‘ میں پارلیمان میں آنا چھوڑ دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کے ارکان کی تقرری کیلئے قائد قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ’’ بامعنی مشاورت ‘‘ آئینی تقاضا ہے لیکن وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنے کیلئے تیار نہیں جس کیوجہ سے الیکشن کمیشن ’’ غیر فعال‘‘ ہو گیا ہے۔ اپوزیشن بھی پارلیمان کیارروائی نہیں چلنے دے رہی جس کہ نتیجے میں پارلیمان کی کارکردگی کی مایوس کن رہی قانون سازی بھی نہ ہونے کے برابر ہے حکومت کو اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ اپوزیشن کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں ہے ۔وہ پارلیمان کی کارروائی چلانے کیلئے کورم پورا کرنے میں ناکام رہی جس کے باعث اکثر و بیشتر پارلیمان میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپوزیشن کی منت سماجت کر کے ایوان کی کارروائی پر سکون ماحول میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی طرف سے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد نہ کر کے سپیکر کے لئے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...