احتجاج زندگی کی علامت ہے!!!!

ملک میں سیاسی جماعتوں کے احتجاج میں افواجِ پاکستان کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ عمل درحقیقت اپنی ناکامیوں کو دوسروں کے سر ڈالنے کے مترادف ہے۔ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اس منفی عمل میں سب سے زیادہ نمبر لینے کی کوشش میں ہے۔ ن لیگ کی طرف سے عوامی اجتماع میں افواجِ پاکستان کو تنقید کا ہدف بنانا معمول بن چکا ہے۔ حالانکہ یہ وہی فوج ہے وہی ادارہ ہے جو دو ہزار تیرہ کے الیکشن کے وقت تھی یا نوے کی دہائی کے تمام الیکشنز میں یا پھر جب میاں نواز شریف کی جماعت حکومت کے وقت تھی اس وقت یہی فوج تھی جس کے ساتھ میاں نواز شریف چل رہے تھے۔ جب میاں شہباز شریف مسلسل دس سال تک ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے اس وقت بھی یہی فوج تھی۔ جب محترمہ مریم نواز شریف ایوانِ وزیراعظم سے حکم نامے جاری کر رہی تھیں یا پھر منفی سرگرمیوں میں مصروف تھی اس وقت بھی یہی فوج تھی۔ جب بڑے میاں صاحب یا میاں نواز شریف جنرل ضیائ￿  الحق کے دائیں بائیں ہوتے تھے اس وقت بھی یہی فوج تھی یا پھر جب میاں نواز شریف عوامی اجتماعات میں یہ کہتے تھے کہ وہ ضیاء  الحق کے ادھورے مشن کو پورا کریں گے، جب وہ ضیاء  الحق کو شکایتیں لگایا کرتے تھے اس وقت بھی یہی فوج تھی چونکہ اس وقت میاں برادران کو آگے بڑھنے اور ذاتی کاروبار کو بڑھانے کے مواقع مل رہے تھے تو انہیں کوئی مسئلہ تھا بلکہ وہ افواجِ پاکستان کے سربراہ کے ادھورے مشن پورے کرنے کے وعدے اور دعوے کیا کرتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت وہ حکومت کر رہے تھے، اختیار و اقتدار کی وجہ سے فائدے حاصل کر رہے تھے اور آج وہ عام انتخابات کے نتیجے میں مرکزی و صوبائی حکومت سے باہر ہوئے ہیں تو انہیں سب کچھ برا لگ رہا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی لوٹ مار کی وجہ سے نااہل اور سزا کے حقدار قرار پائے ہیں اور انہیں اقتدار سے باہر پاکستان کے عوام نے کیا ہے لیکن وہ اس کا ذمہ دار ملک کے سب سے اہم، مضبوط اور ملکی دفاع کے ضامن ادارے کو ٹھہرا کر ملک میں نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔ 
میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں، اقتدار چھن جانے کا اتنا غم ہے کہ وہ سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ وہ ایک ذاتی لڑائی کو عوامی لڑائی، عوام کے استحصال اور حقوق کی جنگ کا نام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی اس جنگ کا واحد مقصد معافی تلافی اور مال و دولت کو بچانا ہے۔ میاں نواز شریف بیرون ملک بیٹھ کر ناصرف ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ پاکستان کے عوام کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کے لیے اکسا رہے ہیں۔  جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اس وقت تک اب چھا ہوتا ہے لیکن اقتدار سے رخصتی کے نتیجے میں وہ نظام کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان دنوں بھی وہ یہی کام کر رہے ہیں گو کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم کے ذریعے وہ اپنا نقطہ نظر عوام تک پہنچا رہے ہیں لیکن اس ساری مشق کا ہدف صرف اور صرف افواج پاکستان ہے اور اس تحریک کو میاں نواز شریف ہی لیڈ کر رہے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پھر سیاسی غلطی تو کر بیٹھے ہیں اور جس انداز میں بلکہ جس جارحانہ انداز میں انہوں نے اور ان کی صاحبزادی میں پاکستان دا نوکری ک ک موومنٹ کے ذریعے افواج پاکستان کو ہدف بنایا ہے اور ریاست کے اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے باوجود اس کے وہ کرپشن لوٹ مار قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کو بچانے کے لئے اس لوٹ مار کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے اہم بہترین اداروں کو متنازع بنا کر ملک میں نفرت اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے اس کوشش میں کامیابی تو نہیں مل سکتی وہ یہ ذہن میں رکھیں کہ آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست میں ہی پاکستان مسلم لیگ نون اور بالخصوص میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور اس جماعت کا وہ گروپ جس کو ہر وقت ملک کے مضبوط دفاع سے مروڑ اٹھتے ہیں ان کے لیے ملکی سیاست میں یا ملک کے سیاسی مستقبل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے سے بڑی تبدیلی آ سکتی ہیں اور میاں برادران یا ان کے خاندان میں جو مسائل ہیں اس میں شدت کے امکانات ہیں۔حمزہ شہباز شریف کی  ضمانت پر رہائی عمل میں آتی ہے تو پھر ان کے کے خاندانی اختلافات میں شدت آ سکتی ہے۔ ان کا سیاسی مستقبل اس لیے بھی مخدوش ہے کہ انہوں نے ریاست کی اہم ذمہ داروں کے ساتھ وہ راستہ اختیار کیا ہے یا وہ انتقام کی آگ میں  اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ اس صورتحال میں بھی انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے اور یہ راستہ صرف اور صرف پاکستان کے سادہ لوح عوام کو پاکستان کے معصوم عوام کو نہ صرف ہمیشہ کی طرح دھوکہ دینے کے مترادف مترادف ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی طرف سے سیاسی طور پر زندہ رہنے کی ایک کوشش کی ہے ہے انہیں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور وہ یہ حق ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کی فوج مخالف مہم کو دیکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی ترتیب دے یا ایسے اقدامات اٹھائے کہ جس سے عوامی سطح پر یہ پیغام جائے کہ فوج کسی بھی طریقے سے سیاسی عمل میں مداخلت کرتی ہے یا پھر ملک کے سیاسی نظام یا اہم فیصلوں میں یا پھر روزمرہ کے معاملات میں مداخلت ہے یا پھر پھر اسے یوں کہہ لیجئے کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے نقطہ نظر کے مطابق اہم فیصلے پارلیمنٹ کے بجائے کہیں اور ہوتے ہیں۔ اس تاثر کو غلط ثابت کرنا پاکستان تحریک انصاف کی بنیادی ذمہ داری ہے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی صورت میں افواج پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ کہ فوج کا یا کسی بھی آرمی چیف کا سب سے بڑا مقصد اور سب سے بڑی ذمہ داری، سب سے بڑا ہدف خالصتا دفاعی معاملات، ملکی ترقی، ملک  میں امن و امان کو قائم رکھنا اور بیرونی خطرات سے بچانا ہے۔ ان اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی آرمی چیف کسی بھی حکومت کو ہر حال میں اپنا مکمل تعاون اور حمایت پیش کرتا ہے۔ ہمیشہ یوں ہی معاملات آگے بڑھتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی بیڈ گورننس کی وجہ سے اور میاں نواز شریف کے جھوٹے بیانیے کی وجہ سے فوج کو سیاسی معاملات میں ملوث کیا گیا ہے یا نہیں ملوث کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے ہے اس صورتحال میں میں پی ٹی آئی کے لیے سب سے اہم ذمہ داری عوامی سطح پر پر فوج کی کسی بھی قسم کی مداخلت کے تاثر کو ختم کرنا ہے۔
چونکہ بنیادی مسئلہ حکومت کی ناقص کارکردگی ہے اور اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے جب حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں تو عوامی سطح پر تمام اداروں کو بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں دانستہ طور پر یا پھر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت افواجِ پاکستان کو اس سیاسی عمل میں ملوث قرار دیتی ہیں ہیں تاکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں پی ٹی آئی نے ہر سطح پر فوج کے حوالے سے اس حد تک گفتگو کی ہے یا پھر پھر ایک پیج والے معاملے کو اس حد تک روزانہ کی بنیاد پر بات کرتے ہوئے ہوئے مقبول عام بنایا ہے کہ اچھا ہوتا ہے کہ تمام فیصلے مجھے تمام ریاستی اداروں کو اعتماد میں لے کر کیے جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے حکومت کے تمام ادارے انہیں اپنی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ حکومت اپنے فیصلے کرنے میں آزاد اور خود مختار ہے یہ الگ بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے وزراء  بھلے وہ وفاقی ہوں یا پھر صوبائی وزرا دونوں سطح پر کارکردگی کے معاملے میں ہر طرف ناکامی ہی ناکامی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ناکامیوں کا اتوار بازار لگا ہوا ہے یا پھر یہ ناکامیاں سہولت بازاروں سے وافر مقدار میں مل رہی ہیں تو غلط نہیں ہوگا اس صورتحال میں میں جب عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے اور حکومت کے اکابرین عوامی اجتماعات میں یہ دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں تمام اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے تو پھر عوامی سطح پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاید افواج پاکستان اور دیگر ادارے آٹے کی قلت آ ٹے کی بڑھتی ہوئی قیمت، چینی کی قلت، چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بھی ذمہ دار ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ روزمرہ کے تمام اہم فیصلے حکومت کے ہیں۔ یہ الگ بات آگے گزرا بہتر فیصلے اور بروقت فیصلے کرنے میں ناکام ہے ہے جیسا کہ کہ سائل این جی کے معاملے میں تاخیر سے خریداری کے نتیجے میں سارا وہ عوام پر آئے گا اور لوگ برا بھلا بلا کسی اور کو کہیں گے۔ اس ساری صورتحال میں بنیادی طور پر پاکستان تحریک انصاف کو اپنی کارکردگی  ٹھیک بنانا ہو گئی اور اپنے فیصلوں سے بلکہ بروقت اور بہتر فیصلوں سے عوامی سطح پر اس تاثر کو قوت دینا ہوگی آگے کہ سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ماسوائے ملک میں امن و امان کو قائم رکھنے اور دہشتگردوں کا قلع قمع کرنے کے سوا فوج کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
جہاں تک تعلق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے احتجاج کا ہے ہے تو اس میں کچھ شک نہیں ہوں کہ اپوزیشن اپنی کشتیاں جلا کر آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے باوجود آنے والے دنوں میں میں یہ محسوس کیا جا سکتا ہے ہے کہ اس اتحاد سے چھوٹی جماعتیں ایک ایک کرکے علیحدہ ہوتی جائیں گی اور پی ڈی ایم کی قوت اور احتجاج کی شدت میں مسلسل کمی آتی رہے گی اگر ہم موجودہ احتجاج کی شدت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کے بیانات کو دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن اپنی گاڑی ٹکرانے یا اسے حکومت کے ساتھ تصادم کی صورتحال پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اس ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں کسی ایک کا نقصان تو ہونا ہے یا تو اپوزیشن نے گھر جانا ہے یا پھر حکومت نے گھر جانا ہے۔ حکومت کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اپوزیشن نے اسی تنخواہ پر کام جاری رکھنا ہے اور اپوزیشن کو کامیابی نہیں مل سکتی کیونکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کا سب سے بڑا مقصد حکومت کو گرانا ہے جو کہ ممکن نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان نے لانگ مارچ اور پھر دھرنا کیا لیکن انہیں حکومت گرانے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ بالکل اسی طرح طرح اس احتجاجی تحریک کو بھی وہ کامیابی نہیں مل سکتی جس کی یہ امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اپوزیشن اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ناکام ہو گی اور اس کے بعد احتجاج کرنے والوں کا کردار ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتا چلا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں حکومت کے لئے اچھی خبریں ہیں ہیں اور سب سے اچھی خبر یہی ہوگی کہ آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات بھی اپنے مقررہ وقت پر اور اور بغیر کسی رکاوٹ کے ہوں گے۔ ان انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف ناصرف کامیاب ہو گی بلکہ وہ سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ اگر ہم دیکھتے ہیں تو کسی حد تک ک مہنگائی میں کمی آرہی ہے جیسا کہ چینی کی قیمتوں میں کمی آئی ہے گو کہ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں لیکن یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے یہی صورتحال اشیاء  خورد و نوش میں پھلوں اور سبزیوں کی بھی ہے جبکہ آٹے کی بلاتعطل فراہمی اور قیمتوں میں استحکام آیا ہے اب یہ کس وجہ سے ہے اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ہر دو صورتوں میں کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔ آنے والے دنوں بلکہ آئندہ برس سینیٹ کے انتخابات کے بعد حکومت کے لئے سب اچھا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو کو اس پھس پھسی اپوزیشن بلکہ اس مردہ اپوزیشن کرپٹ اپوزیشن کے غیر فعال ہونے  کا بھرپور انداز میں فائدہ اٹھانا چاہئے حکومت کے پاس جو وقت بچا ہے اس میں عام آدمی کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے اور پاکستان کے 97 فیصد عوام لوگوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے کے منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ اپوزیشن حکومت گرانا چاہتی ہے لیکن حکومت گراتے گراتے انہوں نے خود جگہ جگہ گرتے رہنا ہے۔ حزب اختلاف کے پاس حکومت کے خلاف کوئی چارج شیٹ نہیں ہے نہ تو کرپشن کے الزامات ہیں ہیں نہ بدعنوانی ہے اور نہ ہی حکومت کے خلاف کہیں پاکستان مخالف طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی کوئی خبریں ہیں۔ یہ حکومت خالصتا پاکستانیوں اور پاکستان کی فلاح و بہبود کا عزم رکھتی ہے گوکہ کے وزراء  کی کارکردگی ناقص کارکردگی اور غلط فیصلوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے عوام عمران خان سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکال کر ترقی کے سفر پر ضرور ڈالیں گے۔ ان پر کہیں کوئی کرپشن یا لوٹ مار کے الزامات ہیں نہ ان کا ماضی داغدار ہے اور نہ ہی وہ ملک سے کوئی مال و دولت سمیٹ کر بیرون ملک منتقل کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف آج ملک کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے ملک و قوم کو لوٹا ہے آج ملک کا بچہ بچہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا ہے ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے اکابرین گوڈے-گوڈے کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اور یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ اگر حکومت ختم ہو گئی تو وہ 2023 کے انتخابات ہی ہوں گے اس سے پہلے کسی بھی دوسرے عمل سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے احتجاج جاری رہیں گے وہ ہلکے ہلکے ہو یا ان میں کوئی شدت ہو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اپوزیشن کی زندگی صرف اور صرف اس احتجاج سے جڑی ہے ہے اور اب یہ احتجاج ہی ان کی زندگی کی علامت ہے اس لیے وہ احتجاج کرتے رہیں گے اور 2023 کے انتخابات ہی فیصلہ کریں گے کہ ملک کا نیا حکمران کون ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن