کوڈ19اپنی پوری قوت کے ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہے ہر ہفتہ کسی نہ کسی عزیز،رشتہ دار یا دوست کو سپرد خاک ہو تا دیکھ رہاہو ں دل اداس رہتاہے اور قنو طیت طاری رہتی ہے زندگی کی بے وفائی کا احساس بڑھتا جا رہاہے ڈائری میں لکھے ان تمام کاموں کی لسٹ پر سیاہی پھیر دی ہے جو مستقبل میں انجام دینے کا سوچا تھا کیونکہ سفید کفن انسان کے مستقبل کے تمام راستوں کو مٹا دیتا ہے موت برحق ہے اور ہر انسان نے اپنے رب کی جانب لوٹ کے جانا ہے لیکن کرونا وبا نے موت کو انسان کے بالکل سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے وہ نزلہ ،زکام ،کھانسی اور بخار جس کو ہم زیادہ سیریس بھی نہیں لیتے تھے آج وہی نزلہ ،زکام ،کھانسی اور بخارانسان کی موت کی چاپ محسوس کرتا ہے کوڈ 19کے انسانوں پر شدید حملوں کے باوجود زندگی بھی اپنی پوری توانائی اور رنگینی کے ساتھ انسان کے ہم رکاب ہے دنیا کے ہر خطے میں رہنے والوںانسانوں کے سر پر اس وبا کی تلوار لٹک رہی ہے پھر بھی زندگی کے معمولات جاری ہیںدنیا کا کاروبار چل رہاہے یورپ اور امریکہ میں کرسمس کی تیاریاں شروع ہیں ہر جانب کرسمس کے درخت نظر آنا شروع ہو گئے ہیں سٹورز پر ملبوسات سمیت انسانی ضروریات کی اشیا ء کی کم قیمت والی سیل لگ چکی ہے یورپ اور امریکہ مارکیٹس کیلئے ٹیکسٹائل مصنوعات تیار کرنے والے پاکستان جیسے ممالک کے صنعت کاروں اور کاروباری کمپنیوں کی نظریں کرسمس سیل پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ کرسمس خریداری کے بعد کالی ہونے والی دوکانوں اور گوداموں میں جو ٹیکسٹائل پروڈکٹس جائیں گی ان سے پاکستان سمیت درجنوں ممالک کی صنعت کا پہیہ چلے گاکوڈ 19کی وجہ سے چین اور بنگلا دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری متاثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور نومبر 2020میں پاکستان کی ایکسپورٹ 2ارب 15کروڑ ڈالرز سے زائد کی ہو گئیں گذشتہ10سال کے دوران نومبر کے ماہ میں یہ ایکسپورٹس کے حجم کی سب سے بلند شرح رہی کرونا کے دنوں میں پاکستان کی اس ایکسپورٹ نے ملک کے معاشی رخ کو نکھار دیاہے اور مایوسی کے ان دنوں میں یہ ایک خوشخبری ہے اس کے علاوہ رواں مالی سال کے ابتدائی 5ماہ میں کل ایکسپورٹس کا حجم 9ارب 73کروڑ ڈالرز سے زائد رہا جو کہ گذشتہ بر س کے اس عرصے کے مقابلے میں تقریباََ200ملین ڈالرز زائد ہے اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر کرونا کیسز میں مسلسل اضافے کے باوجود پاکستان کی برآمدات میں مضبوط بحالی کا آغاز ہوا ہے اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کی پالیساں اور ایکسپورٹرز کی محنت اس کو بحال رکھے گی کیونکہ اگر ایکسپورٹ اس طرح بڑھتی رہیں تو اس مالی سال میںایکسپورٹ 25ارب ڈالرز سے بڑھ سکتی ہے جس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو ناقابل یقین فائد ہ ہو گا۔
اب ایک نظر کاٹن مارکیٹ پر جہاں ایک طرف پاکستان میں کراپ سائز واضح ہونا شروع ہو گیا ہے دوسری طرف تاحال کاٹن کی فصل بچانے کیلئے کوئی بھی حکومتی اقدام سامنے آنہیں آئے PCGAکی جانب سے یکم دسمبر 2020تک کپاس کے اعداوشمار جاری کئے گئے ہیں جس کے مطابق 46لاکھ 48ہزار گانٹھ کی پھٹی پاکستان کی کاٹن فیکٹریوں میں آئی ہے جبکہ گذشتہ سال مطلب یکم دسمبر2019کو 74لاکھ 47ہزار گانٹھ کی پھٹی آئی تھی اس طرح 37.59فیصد پھٹی کم رواں سیزن میں آئی ہے جو بہت تشویش ناک صورتحال ہے اور اس پر بھی کمال بات یہ ہے کہ مارکیٹ میں پھٹی کا ریٹ عدم استحکام کا شکار ہے پاکستان میں ریکارڈ پیداواری کمی پاکستان کے ہر زرعی ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے پاکستان میں کاٹن ریسرچ کا ادارہ سینٹرل کاٹن کمیٹی جس کے بجٹ کا بڑا حصہ کاٹن سیس سے آتا ہے جو آپٹما دیتی تھی گذشتہ 4سال سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسویشن (APTMA)نے یہ سیس بند کردیا ہے جس کی وجہ سے یہ کاٹن ریسرچ کا ادارہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہے جبکہ اس ادارے کے اوپر جو لوگ منجمنٹ کر رہے ہیں وہ تو اپنے واجبات ٹھاٹ سے وصول کر رہے ہیں جبکہ عام ملازمین کا حال بر اہے انہیں تنخواہیں تک نہیں مل رہیں اس حوالہ سے ایک اپٹما رہنما سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا ان کا بتانا تھا کہ کاٹن ریسرچ کے اس ادارے کی کارکردگی صفر ہے اور یہ کوئی کارکردگی نہیں دکھا رہا پوری دنیا میں کاٹن ریسرچ کے ادارے جو کر رہے ہیں ان میں سے ایک کام بھی یہ نہیں کر سکا پاکستان کے کونسے سے علاقے میں کونسا سیڈ کامیاب ہے اب ہوتا یہ ہے کہ ایک ورائٹی پورے پاکستان میں لگ جاتی ہے جو 10علاقوں میں ناکام ہو جاتی ہے جبکہ ایک علاقے میں کامیاب ہو جاتی ہے جبکہ دنیا میں ہر کاٹن پیدا کرنے والے اور ہر کاٹن ریسرچ کرنے والے ادارے کا پہلا کام کاٹن سیڈ ز کی زونگ کرنا ہو تاہے تاکہ کاشتکار اپنی زمین پر غلط سیڈ کاشت نہ کریں اب جبکہ اس حوالہ سے یعنی بنیادی ریسرچ ہی نہیں کر پا رہا جو ادارہ تو اسے ہم سالانہ کروڑوں کا سیس کس مد میں دیں پاکستان میں کاٹن تباہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں ملیں بند ہو گئی ہیں اور اس سال بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری اربوں ڈالرز کی کاٹن امپورٹ کرنے پر مجبور ہے ایسے حالات میں ہمارا سیس دینا بنتا ہی نہیں ہے ہم کیوں دیں دوسری طرف کاٹن سینٹرل کمیٹی والے کہتے ہیں کہ بغیر فنڈ کے کیسے ریسرچ ممکن ہے ہمیں تو تنخواہیں تک نہیں مل رہی تو ریسرچ کہاں سے ہو گی بنگلا دیش میں کاٹن ریسرچ پر سالانہ 180ملین ڈالرز خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان میں حکومتی فنا نشل سپورٹ تو کیا ملنی تھی الٹا اپٹما کاٹن سیس تک نہیں دے رہی ایسے حالات میں توقع کرنا کہ کاٹن ریسرچ میں کوئی انقلابی کام ہو گا کام خیالی ہو گی حکومت باقاعدہ کاٹن ریسرچ کی اہمیت کو سمجھتے ہو ئے (R CCC)کو بجٹ فراہم کرے جبکہ ایک ارب روپے فوری جاری کئے جائیں تاکہ چلتے ہو ئے پروجیکٹ متاثر نہ ہوں دوسری طرف کاٹن کے بعد کاٹن یارن پر بھی ڈیوٹیاں ہٹائی جا رہی ہیں جبکہ کاٹن کے علاوہ اب کئی ممالک سے کاٹن ویسٹ بھی امپورٹ ہونا شروع ہو گئی ہے حکومت سنجیدہ ہو کر کاٹن پر سوچے کیونکہ 60دن کے بعدپاکستان میں کاٹن کی بہاریہ کاشت شروع ہو جائے گی یاد رہے کہ فروری کے پہلے ہفتہ میں سندھ اور پنجاب میں اگیتی کی بیجائی کا آغاز ہو جاتا ہے حکومت جنوری 2021 میں کم از کم کپاس کے سپورٹ پرائز کا اعلان لازمی کرے تاکہ کاٹن لگانے والے کاشتکار کی حوصلہ افزائی ہو ۔
"ـکرونا کے زیر اثر معیشت ،کپاس کی حالت "
Dec 07, 2020