اسلام آباد (نیوز رپورٹر) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ جو بائیڈن کے قیادت میں امریکہ کی نئی انتظامیہ کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے امکانات زیادہ نہیں ہیں تاہم امریکہ سلامتی کونسل کے ایک با اثر رکن کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ لندن کے سکول آف اکنامکس کی سٹوڈنٹس یونین کے زیراہتمام خارجہ امور کے ماہر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ سے جموں و کشمیر کے عوام بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کے وہ بھارت کو کشمیریوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے روکے گی لیکن اس کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم اور امریکہ میں سات لاکھ سے زیادہ پاکستانی اور کشمیری نئی انتظامیہ کی پالیسی سازی میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی اور کشمیریوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ کے حکومتی اداروں میں ویسا ہی اثر و رسوخ حاصل ہے جیسے بھارتی امریکیوں کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں صد ٹرمپ کی حکومت نے پاکستان کی مدد سے افغانستان میں قیام امن کے لئے اہم پیش رفت کی اور تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کی پیشکش بھی کی لیکن بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مصنوعی توازن قائم کی کوشش میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے ثالثی کی پیش کش پر صدر ٹرمپ نے چپ سادھ لی۔ امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے اور نائب صدر کمالہ ہارس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت میں بیانات دیئے تھے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ حکومت سازی کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کشمیر حل کرنے میں کیا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کے حوالے سے جو حل طلب مسائل چھوڑے ان کے اثرات پاکستان میں بھی پڑ سکتے ہیں اس لئے ہمیں جوبائیڈن انتظامیہ سے توقع ہے وہ افغانستان کے مسائل حل کرنے کے لیے افغان قیادت، پاکستان اور دوسرے شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کا نیا سلسلہ شروع کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کا تذکر کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مقبوضہ علاقہ میں نسل کشی اور کشمیریوں کی زمین ہتھیانے کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری ہے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران بائیس لاکھ بھارتی ہندوؤں کو مقبوضہ کشمیر میں لا کر بسایا گیا اور بھارت کے ان تمام اقدامات کا مقصد مسلم اکثریت والی ریاست کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی جارحانہ ہونی چاہیے اور غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کو بھارتی نو آبادی بننے اور کشمیریوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے ہمیں اپنا ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا ہو گا۔ بھارت کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات مسترد کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کا حل کثیر القومی سفارتکار ی کے ذریعے ہی ممکن ہے انہوں نے کہا کہ آج سے ستر سال پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا جو حل تجویز کیا تھا وہی آج بھی قابل عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے دوطرفہ مذاکرات کو کشمیر میں اپنے قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے اور کشمیریوں کو مذاکراتی عمل سے دور رکھنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس لیے دنیا کو احساس ہونا چاہیے کے مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں جن میں کشمیریوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ شرکاء کے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ آزاد کشمیر اور غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کے درمیان کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کے برعکس نہ تو لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے نہ پیلٹ گن کے استعمال سے آنکھوں کی بصارت سے محروم کیا جاتا ہے اور نہ ہی جعلی مقابلوں میں نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ آزا د کشمیر میں لوگ آزای کے ماحول میں اپنے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ غیرقانونی زیرقبضہ کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں بھارت کی نو لاکھ قابض فوج ناقابل یقین مظالم ڈھا رہی ہے اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں میں مصروف ہے۔
امریکی ثالثی کا امکان نہیں، بائیڈن انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے: سردار مسعود
Dec 07, 2020