جنتر، منتر ، تنتر

قارئین کرام:بلاشبہ غربت اور جہالت اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی نہیں بلکہ دیگر تمام مسائل کی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے آج بھی سادہ لوح لوگوں کی بڑی تعداد اپنے معاشی مسائل کے حل، روزگار کے حصول، کاروبار میں اضافہ، مرضی کی شادی، شوہر کی تابعداری ، محبوب کو قدموں میں لانے ، ساس کا بہو کو قابو کرنے اور بہو کا ساس سے چھٹکارہ حاصل کرنے ،راتوں رات امیر ہونے کیلئے پرائز بانڈ کے نمبر کے ذریعے انعامات کی بارش ، کاروبار میں بندش کو دور کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ اولاد نرینہ کے حصول کیلئے نام نہاد جعلی پیروں ، عاملوں کی شکارگاہوں ’’آستانوںاور پیر خانوں‘‘ کا رخ کرتی نظر آتی ہیں۔ ضعیف الاعتقاد مردوخواتین ان فراڈیوں کے آستانوں پر اپنے مال و زر سے محروم ہونے کے ساتھ اپنی عزتیں اور جانیں بھی بھی گنوا بیٹھتے ہیں ، ماضی میں ایسے کئی واقعات منظرعام پر آچکے ہیں جن میں ان ڈبہ پیروں نے جن نکالنے سے لیکر دیگر شعبدے بازی کی آڑ میں معصوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاراہیں ،ان واقعات میں سرفہرست سانحہ سرگودھا ہے جس میں ڈبہ پیر عبدالوحید اور اسکے ساتھیوں نے نشہ آور ادویات اور تشدد کے ذریعے 20 مریدین کو قتل کیا تھا جن میں تین عورتیں اور 17 مرد شامل تھے، تقریبا تین سال قبل فیروزوالہ میں ڈبہ پیر کے ایماء پر ماں کے ہاتھوں بیٹے کے قتل کے واقعہ نے ہلچل مچا دی تھی ،پولیس کے مطابق خاتون کو ’اس کے روحانی پیشوا نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر وہ اپنے بیٹے کو قتل کردیں تو وہ ایک ہفتے کے لیے مر جائے گا لیکن بعد میں اسلام آباد میں زندہ ہوگا، اسی ملزمہ نے 5 سال قبل اپنے ’مرشد‘ کے کہنے پر مبینہ طور پر اپنے خاوند کو بھی قتل کیا تھا۔قارئین کرام:ایسے گھنائونے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں مگراس کے باوجود لوگ ان( نوسربازوں) کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیتے ہیں۔آج بھی صورتحال یہ ہے کہ غریب آدمی اپنے تمام مسائل کا حال انہی ڈبہ پیروں کی صحبت میں تلاش کرتا ہے۔ ،جی ہاں، لاہور سمیت پورے پنجاب بلکہ ملک بھر میں جعلی عاملوں، نجومیوں اور ڈبہ پیروں کی بھرمار ہے جوکہ اپنے تمام گاہکوں کو یقین دلاتے ہیں کہ صرف وہی اپنے عمل میں کامل اور ''علم چلانے'' کے ماہر ہیںاور ان کا کام سو فیصد گارنٹی سے ہوگا، جعلی پیر، عامل اور درویش، نجومیوں کے غیر قانونی پیشے کی اصطلاحا ت انتہائی دلچسپ ہیں جس کے مطابق یہ اپنی زبان میں مسلئے کے حل کیلئے آنیوالے مردو خواتین کو ''کلائنٹ''اور اپنے ہم پیشہ افراد کے سامنے ''ٹنا'' یا ''ٹنی'' کہا جاتا ہے جبکہ معاملہ طے کرنے ،ڈیل اور پبھا،کرناکہتے ہیں، اسی طرح کسی عورت کو ورغلا کر اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانا ان کی زبان میں ''شبھکائی'' کہا جاتا ہے۔ لاہور سمیت پاکستان کے کسی بھی شہر کی کوئی گلی ،بازار یا علاقہ ایسا نہیں جہاں پر کالے علم کے ذریعے کام کرنیوالے جادوگر، عامل اور جعلی پیروں کے آستانے موجود نہ ہو جو تعویذوں کو اصلی زعفران سے لکھنے، بکروں کا صدقہ دینے کیلئے رقم طلب نہ کرتے ہو، یہ نوسرباز کسی بھی شہر میں آفس بناکر اس کی تزئین آرائش کرکے کوئی بھی نام کا بورڈ آویزاںکرتے ہیں جیسے حضرت بڑی سرکار، پروفیسر اسرارعظیم، بابا بنگالی، مائی کلکتے والی،یا پھرخود کو روحانی سکالر ، روحانی ڈاکٹر، عاملوں کا سردار ،جنات کا بادشاہ ،موکلوں کامالک اور زندہ پیر کامل اور جنات والے ظاہر کرتے ہیں اور اپنا تعلق بنگال،کیرالا، کالی گھاٹ ،تبت، نیپال ،وار سندر کے ہندو پجاریوں سے ملاتے ہوئے دعوی کرتے ہیں ہے کہ ہر بیماری کا علاج، ہرکام تین منٹ یا تین گھنٹے کے اندر اندر ہو جائے گا۔جبکہ بعض کا دعوی یہ بھی ہوتا ہے کہ ہر کام سوا منٹ، سوا گھنٹہ، سوا دن کے اندر، بغیر کسی فیس کے ہوگا جس کے بعد لوگ اشتہار کو دیکھ کران سے رابطہ کرتے ہیں جسکے بعدجادو کا اثر ختم کرنے کیلئے ہرن کی کھال، شیر کی کھال کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں اسی طرح ہرن کا نافہ اور کستوری، مشک، عنبر، زعفران کے ساتھ ساتھ ان اشیاء کی ڈیمانڈ کی جاتی ہیں جوکہ عام طور پر کہیں سے نہیں ملتی، توہمات کا شکار شخص ڈبہ پیر و عامل کو اپنی حیثیت کے مطابق پیسے دیکر اپنی جان کی خلاصی کرواتا ہے ، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان ناسوروں کے خلاف آج تک کبھی کسی مذہبی یا سماجی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے نے قانونی کاروائی کی، ماضی میں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کے دور میں عاملوں ، جعلی پیروں اور نجومیوں کیخلاف کریک ڈائون ہوا تھا جس میں ان فراڈیوں کیخلاف تھانوں میں مختلف دفعات کے تحت مقدمات کا اندراج ہوا تھا جبکہ جو قانون کے شکنجے میں آنے سے بچ گئے تھے وہ اپنا گھنائونا کارروبار سمیٹ کر روپوش ہوگئے تھے ، مگر صد افسوس کے گزرے ہوئے سالوں میں یہ واحد پولیس آپریشن تھا جو جعلی عاملوں اور ڈبہ پیروں اور نجومیوں کیخلاف کیاگیا تھا اسکے بعد کسی حکومت کو ایسی کارروائی کرنے کا خیال نہیں آیا یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ ان فراڈیوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں اور لٹتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...