خالد بہزاد ہاشمی
اللہ تبارک تعالیٰ نے وجہ تخلیق کائنات پیارے نبیؐ آقائے دوجہاںؐ کو صرف رحمت المسلمین قرار نہیں دیا بلکہ دوجہانوں کیلئے اور تمام مخلوق کیلئے رحمت للعالمین کے اس آفاقی لقب کی نہ صرف ترجمانی بلکہ ایسی روشن مثالیں قائم کیں جن کی مثال تاریخ انسانی دینے سے قاصر ہے۔ آپ آخری نبیؐ ہیں جو سب کا کامل ایمان ہے اور آپؐ کی حرمت کیلئے ہر مسلمان غازی علم الدین شہید کی طرح جان نچھاور کرنے کا جذبہ صادق رکھتا ہے۔ جو کوئی بدبخت آپؐ کی شان اقدس میں گستاخی یا بے ادبی کا مرتکب ہوتا ہے‘ اس کیلئے قانون اور آئین میں سخت سزائیں موجود ہیں جن پر عملدرآمد حکومت اور دیگر ذمہ دار اداروں کی ذمہ داری ہے۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
بدقسمتی سے مذہبی و لسانی اختلافات سیاسی و معاشرتی تفریق نے قومی اتحاد و اتفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بیروزگاری‘ بڑھتی آبادی اور غربت نے تعلیم و شعور‘ دلیل و استدلال سے ہم سب کو بہت دور کر دیا ۔ توہین رسالتؐ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا نہ ملنا و یورپ اور مغرب کا توہین رسالتؐ کے مجرموں کی سرپرستی ،پناہ دینا اور اس کے ردعمل میں شدت پسندی کو فروغ اور اسی طرح مخالفین پر ذاتی عناد کیلئے توہین رسالتؐ جیسے الزامات بھی ملک میں تواتر سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھسانے کی روایت صدیوں پرانی ہے اور اس میں اب مذہبی عنصر کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔
چند یوم قبل شہر اقبال سیالکوٹ میں مشتعل فیکٹری ورکرز نے سری لنکا کے منیجر پریانتھا کو بہیمانہ تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہجوم نے نعش کی بے حرمتی اور گھسیٹنے کے بعد اسے سرعام نذر آتش کر دیا۔ اس شرمناک سانحہ کی صدر‘ وزیراعظم‘ آرمی چیف اور ملک بھر کے مذہبی‘ سیاسی‘ سماجی حلقوں نے شدید مذمت اور ملزموں کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سری لنکن صدر راجہ پاکسے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ سانحہ سیالکوٹ میں ملوث مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کریں گے۔ سیالکوٹ میں پریانتھا کے قتل پر پاکستانی قوم کو بھی غصہ ہے اور قوم سری لنکا سے شرمندہ ہے۔ سری لنکن صدر اور وزیراعظم نے اس سانحہ پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری حکومت کو وزیراعظم عمران خان پر مکمل بھروسہ ہے کہ پاکستان انصاف کی فراہمی اور ملک میں باقی سری لنکن کارکنوں کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے گا جبکہ سری لنکن وزیرخارجہ نے وزیراعظم پاکستان کے فوری ردعمل اور اقدامات کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس وحشیانہ اور غیرانسانی قتل کی ملک کے طول و عرض میں شاید مذمت کی جا رہی ہے جبکہ بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ ایسے سانحات نہ صرف دین متین اسلام اور ہمارے ارض پاک کے تشخص کو بری طرح مجروح اور بدنام کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ وفاقی وزیراطلاعات نے ایسے واقعات کو معاشرے میں ٹائم بم لگانے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انہیں ناکارہ بنایا تو بھی پھٹیں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے کہ سانحہ سیالکوٹ پر پوری قوم کے دل زخمی ہیں۔ کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔
ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ڈسپلن اور پابندیاں بہت بری لگتی ہیں اور جو ہمیں اصول‘ دائرے اور ضابطے میں لانے کی کوشش کرتا ہے چاہے اس کا رویہ ہمارے ساتھ کتنا ہی اچھا اور مثالی رہا ہو‘ وہ ہمیں انتہائی ناگوار اور دنیا کا بدترین انسان نظر آنے لگتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ڈسپلن کے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے اور کسی کوتاہی پر ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کرنے والا تو پھر ہمارے نزدیک گردن زدنی کا مؤجب ٹھہرتا ہے۔ سانحہ سیالکوٹ کو دیگر عوامل اور وجوہات کے علاوہ اس تناظر میں دیکھنا از حد ضروری ہے۔ فیکٹری ورکرز اور دیگر عملہ پریانتھا کی صفائی ستھرائی اور ڈسپلن کی عادات کو سخت ناپسند کرتا تھا اور اس مسئلہ پر ان میں اکثر تکرار بھی رہتی تھی۔ غیرملکی کمپنیوں کے وفود جلد فیکٹری کا دورہ کرنے والے تھے اور ہال اور مشینری پر جابجا پوسٹر اور سٹکرز لگے تھے جیسا کہ عام طورپر کئی فیکٹریوں اور دوسرے دفاتر میں بھی لگے ہوتے ہیں۔ پریانتھا غیرملکی وفود کی آمد سے قبل فیکٹری میں پینٹ کرانا چاہتا تھا اور جس کیلئے جابجا لگے ان سٹکرز اور پوسٹرز کا صاف کرنا ازحد ضروری تھا۔ اس نے بطور منیجر فیکٹری ملازمین کو مشینوں پرلگے یہ سٹکرز ہٹانے کی ہدایت کی جنہوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا جس پر اس نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے ان بینرز اور سٹیکرز کو ہٹانا شروع کیا جن میں مذہبی سٹکر بھی شامل تھا جس پر فیکٹری ورکرز نے شور مچایا۔ یہ امر خاص طورپر توجہ طلب ہے کہ پریانتھا عربی‘ اردو یا پنجابی تو نہیں جانتا تھا اور اس کیلئے دیگر پوسٹرز اور سٹکرز کی طرح وہ مذہبی پوسٹر بھی ایک جیسا تھا۔ اس کی لاعلمی اور زبان سے ناواقفیت کو آگے چل کر بطور مذہبی ہتھیار استعمال کیا گیا۔ جب معاملہ فیکٹری مالکان کے علم میں آیا تو انہوں نے اس کی توجہ مذہبی جذبات مجروح ہونے کی جانب مبذول کرائی جس پر پریانتھا نے فیکٹری ورکرز سے معذرت بھی کر لی تھی۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے لاعلمی میں غلطی ہوجانے کی صورت میں معافی و درگزر کا حکم دیا ہے اور اسے پسند فرمایا ہے۔ اس سانحہ سے قبل ناقص صفائی کے مسئلے پر پریانتھا کو بھی ایسی ہی صورت حال پیش آئی،ان پر ہونے والے حملہ میں گرفتار سپروائزر اور ورکرز کی انہوں نے سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ کی تھی ۔جس نے اسے اپنی سخت بے عزتی سمجھا اور اس کے بعد وائٹ واش کیلئے مشینوں سے پوسٹرز اور سٹکرز اتارنے کا معاملہ پیش آیاجس میں ایک مذہبی سٹکر بھی شامل تھا، گرفتار سپروائزر نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے اس معاملے کودیگر ورکروں میں اشتعال دلانے کیلئے استعمال کیا۔چنانچہ یہ سب ہجوم کے ساتھ مل کر اس نہتے فیکٹری منیجر پر درندوں اور بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے ، ٹوٹ پڑے جو دس بارہ سال سے اپنی بیوی بچوں سے دور دیارغیر میں اس ارض پاک پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ اس پر آہنی راڈوں‘ پتھروں سے اس کا سر‘ چہرہ‘ جبڑہ‘ ریڑھ کی ہڈی اور دیگر ہڈیاں چورہ چورہ کر دی جاتی ہیں۔ معافی کا خواستگار اور پوسٹر کی زبان سے ناآشنا پریانتھا جان بچانے کیلئے چار منزلہ عمارت کی سیڑھیاں پھلانگتا چھت پر نصب وسیع و عریض سولر پینلز کے نیچے جائے پناہ تلاش کرتا چھپتا ہے‘ لیکن وحشی ہجوم وہیں پر اس پر آہنی راڈوں سے درندوں کی طرح پل پڑتا ہے۔
اس واقعہ میں جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں کچھ عرصہ قبل ایک مذہبی جماعت کے احتجاجی دھرنے سے قبل اندیشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا تھا ، پریانتھا پر جان لیوا حملہ کے دوران وڈیوز میں ان افراد کی طرف سے مذکورہ مذہبی جماعت کے نعرے لاگتے با آسانی سنا جا سکتا ہے۔ فیکٹری کے تمام ورکرز کے یکدم اشتعال میں آنے اور باہر سے فوری مدد ملنا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ نو سو افراد کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ سو سے زائد افراد گرفتار ہیں۔ بیس ملزمان کا مرکزی کردار سامنے آیا ہے ۔بعض ملزمان کے ہاتھ میں پٹرول کی بوتلیں تھیں جن سے فیکٹری کو آگ لگانے کا منصوبہ بھی خارج از امکان نہیں ہو سکتا۔ تاہم ایک انسانی جان کو جس بے دردی کے ساتھ قتل کر کے جلایا گیا پوری انسانیت اس واقعہ پر شرمسار اور سوگوار ہے۔
پریانتھا کی سوختہ نعش جب بوجھل دل کے ساتھ سری لنکا روانہ کی گئی ہے، اس واقعہ کے بعدسے کئی ایک سوال دل دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ غالباً بیس اکیس سال قبل اسی طرح اپنی نوعیت کا ایک اور واقعہ پیش آیا تھا۔ راقم کی ڈیوٹی نیوز روم نوائے میں فیصل آباد / گوجرانوالہ ایڈیشن پر تھی اور موجودہ نمائندہ خصوصی برخوردار فرمان میر کے نانا جان اعجاز میر نمائندہ خصوصی تھے اور محمد شفیق خبریں بھجواتے اور ٹیلی فون پر لکھواتے تھے۔ کھیالی شاہ پور میں ایک امجد نامی حافظ قرآن جن کا تعلق مذہبی گھرانے اور جماعت اسلامی سے تھا مقیم تھے۔ یہ نئی آبادی تھی بیشتر گھروں کے دروازے، کھڑکیاں اور دیواریں نامکمل تھیں ، یہ اکیلے رہائش پذیر تھے۔ گھر کی ایک طرف کی دیوار بھی نامکمل تھی اورسامنے رہائش پذیر خاتون حافظ صاحب سے اکثر و بیشتر لڑتی جھگڑتی رہتی تھی لیکن وہ اپنی نیک چلنی اور مذہبی تربیت کے باعث اسے ہمیشہ نظرانداز کر دیتے۔ ایک روز وہ تیل کے چولہے پر کھانا یا چائے وغیرہ بنارہے تھے اسی دوران وہ قرآن پاک کی تلاوت میں بھی مصروف تھے، کرسی یا چارپائی سے اٹھتے ہوئے کوئی بوسیدہ ورق اچانک نیچے گر گیا جسے اٹھانے کیلئے وہ جُھکے وہ پڑوسن جو ہر دم ان کی کھوج میں رہتی تھی یہ سب دیکھ رہی تھی اس نے فوراً شور مچانا شروع کر دیا کہ حافظ صاحب سٹوپ پر قرآن پاک کے اوراق نذر آتش کررہے ہیں یہی نہیں بلکہ فوراً قریبی مسجد میں جا کر لائوڈ سپیکر پر اعلان بھی کردیا اور مشتعل لوگوں کا ہجوم حافظ صاحب کے گھر پر حملہ آور ہو کر انہیں بے دردی سے مارنے لگا، قریب ہی موجود تھانہ چکی کھیالی شاہ پور سے پولیس اہلکار آ گئے اور حافظ صاحب کو مشتعل ہجوم کے نرغے سے نکال کر چوکی لے گئے لیکن غیض و غضب میں مبتلا ہجوم اتنا مشتعل ہو چکا تھا کہ وہ پولیس چوکی پر ٹوٹ پڑا اور پولیس چوکی نذر آتش کر دی اور حافظ صاحب کو پویس حراست سے چھڑا کر سڑک پر لے آئے اور بے گناہ حافظ قرآن کو ڈنڈے ، سوٹوں، آہنی راڈوں اور اینٹوں سے کچل کرمار ڈالا، اسی پر اکتفا نہ کیا ان کی نعش کو موٹر سائیکل سے باندھ کر دو کلو میٹر تک سڑک پر گھسیٹا اس کے بعد نعش کو آگ لگا کر نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حافظ صاحب کے سینے میں قرآن مجید فرقان حمید تھا اور یہ منظر اہالیان گوجرانوالہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مشتعل ہجوم حافظ صاحب کی نعش کو بار بار مٹی کا تیل اور پٹرول چھڑک کر آگ لگاتا اور ان کے جسم کو آگ نہ لگتی اور جلتی بھی کیسے، یوں ایک بے گناہ معصوم اور بے ضرر انسان ایک خاتون کی ذاتی رنجش و انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا ، جبکہ بعد میں ایک بے گناہ کے لرزہ خیز قتل پر لوگ محض کف افسوس ہی ملتے رہے لیکن
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود و پشیماں کا پشیماں ہونا
بارہ ربیع الاول کو پوری قوم میلادالنبی ؐمذہبی جوش و جذبہ سے مناتی ہے اور اس موقع پر بڑے شہر میں لاکھوں کی تعداد میں مذہبی پوسٹر، بینر، جھنڈے ، فلیکس ،سٹکر اور مقامات مقدسہ کے ماڈلز تیار ہوتے ہیں۔ میلاد النبیؐ گزرنے کے ساتھ ہی یہ تمام پوسٹرز ، جھنڈے ، بینرز اور سٹکرز جابجا زمین اور گندی جگہوں پر گرے اور پڑے نظر آتے ہیں اور ان پر آیات مقدسہ اور مقدس نام بھی تحریر ہوتے ہیں جو قدموں میں آ رہے ہوتے ہیں۔ بارش کی صورت میں ان کی مزید بے ادبی ہوتی ہے، اسی طرح سال بھر حمد و نعت اوردیگر مذہبی محافل کی تقاریب کے بینرز اور پوسٹرز بھی پاک ناپاک جگہوں پر دکھائی دیتے اور بعد میں کوڑے دانوں میں نظر آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ انتہائی تکلیف دہ امر یہ ہے کہ قرآن پاک اور مقدس کتب اور ان کے شہید اور شکستہ اوراق چلتے پانی میں بہانے کے لیے شہر سے گزرنے والی نہر جو اب گندے نالے اور جوہڑ کی شکل اختیار کرچکی ہے ڈال دئیے جاتے ہیں ، قرآن و حدیث کے اوراق نہرمیں پانی کم ہونے اور بھل صفائی کے دنوں میں ٹنوں کے حساب سے اس گندی نہر کے کنارے پڑے ہماری مذہبی غیرت و حمیت پہ کسی تازیانے سے کم دکھائی نہیں دیتے۔
پنجاب قرآن بورڈ کے رکن مولانا ناظم الدین گزشتہ تین چار دہائیوں سے قرآن پاک کے شہید اور مقدس اوراق کی حفاظت اور انہیں پاک صاف کر کے محفوظ کرنے کے مقدس مشن پر مامور ہیں۔ انہوں نے نوائے وقت کو بتایا کہ لاہور سے گزرے والی نہر اب نہر نہیں رہی اسی طرح راوی بھی دریا راوی نہیں، لوگ گھروں، مدارس ، مساجد سے لاکھوں کی تعداد میں قرآن پاک ، سیپارے، اسلامی پرچے ، فلیکس گندے پانی میں بہا دیتے ہیں۔ حکومتی سطح پر قرآن محل اور رائے ونڈ روڈ گرین سکیم میں چار بڑے ویل (کنویں) بنائے گئے جن کا میں انچارج ہوں، جہاں سے یہ شہید اور شکستہ مقدس اوراق کی ڈھائی لاکھ بوریاں ری سائیکلنگ کے لئے مدینہ فائونڈیشن فیصل آباد اور کراچی بھیج چکا ہوں جبکہ انہوں نے تیس سال سے شیراکوٹ بند روڈ پر اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر شاہ جہاں قرآن فائونڈیشن کا ادارہ قائم کر رکھا ہے جہاں مقدس اوراق محفوظ کئے جاتے ہیں۔ مولانا ناظم الدین نے نوائے وقت کے پلیٹ فارم سے حکومت سے مطالبہ کیاکہ کرونا کے حوالے سے کس طرح آگاہی مہم چلا کر لوگوں کو ڈرایا گیا کیا حکومت اور علماء دین قرآن پاک کی بے ادبی کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر عوام کو نہیں ڈرا سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے سخت ناراض ہیں ، اس 80 کلومیٹر طویل نہر کے کنارے جگہ جگہ بورڈ نصب کئے جائیں جن پر عوام الناس کو قرآن پاک اور مقدس آیات نہر میں پھینکنے سے منع کیا جائے اور اس کے ساتھ بڑے بکس رکھے جائیں جن میں لوگ وہ قرآن پاک رکھ سکیں، علاوہ ازیں قبروں پر چاروں قل ،آیت الکرسی اور قرآنی آیات کی چادریں ڈال کراہلخانہ بھول جاتے ہیں جو ریزہ ریزہ ہو کر پیروں میں آ رہی ہوتی ہیں انہیں بھی ہم پاک صاف کر کے محفوظ کرتے ہیں‘‘ ۔مولانا ناظم الدین جیسے فرشتہ سیرت لوگ تو سب کچھ فراموش کرکے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لیکن مفتیان دین اس حساس مسئلہ پراپنی ذمہ داری کب اور کیسے پوری کریں گے ، دوسرے محترم ناظم الدین کی بات میں بہت وزن ہے حکومت اور علماء کرام بہت سنجیدگی اور ذمہ داری کیساتھ اسے مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔
سیالکوٹ جیسے سانحات ہمارے اُجلے قومی و مذہبی دامن پر سیاہ دھبہ ہیں اور ان کا تدارک ہماری قومی و ملی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت ، سیاستدانوں ، مفتیان ، دین ، علمائے کرام ، اساتذہ کرام، معاشرے اور والدین کو سنجیدگی سے ناصرف سوچنا بلکہ انہیں پیارے نبیؐ کی حرمت کی حفاظت کیساتھ اسلام اور رحمت للعالمین کے امن و آشتی کے درس ، حسن اخلاق ، پیار، مذہبی رواداری اور انسانیت کے پیغام کو بھی اجاگر کرنا ہو گا، تاکہ آئندہ ایسے کسی شرمناک سانحہ کا اعادہ نہ ہو سکے۔ جبکہ توہین رسالتؐ کے مرتکب کسی بھی مجرم کو فوری قرار واقعی اورعبرتناک سزا پر عمل کر کے ہی مذہبی شدت پسندی اور بے رحمانہ ردعمل جیسی لعنت سے بچا جاسکتا ہے۔
سانحہ سیالکوٹ اجلے دامن پر بدنما داغ
Dec 07, 2021