برصغیر کے روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کی طرح انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان میچز ایک جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔دونوں ممالک کی ٹیمیں 144 برس سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں سرگرداں چلی آ رہی ہیں۔ ایشنز سیریز آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں کے علاوہ یورپ کے متعدد ممالک کے ہزاروں جذباتی اور جوشیلے تماشائیوں کے درمیان انتقامی معرکہ آرائی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان صدیوں سے جاری جنگ میں اب تک 351 میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں 146 میچز میں آسٹریلیا انگلینڈ 110 میچز میں فاتح رہا جبکہ 95 میچز ڈرا ہوئے آسٹریلیا 39 انگلینڈ 32 سیریز میں فاتح رہ چکا ہے۔ 9 سیریز کا فیصلہ نہ ہو سکا‘ 81 ویں ایشنز سیریز 8 دسمبر سے شروع ہو گی اور 18 جنوری 2022ء تک جاری رہے گی۔ پانچ میچز کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان تین ون ڈے میچز کی سیریز بھی کھیلی جائے گی۔
یہ امر توجہ طلب ہے کہ آخر ایشنز ہے کیا اس کی بنیاد کیلئے پڑی دنیا کی دو بڑی ٹیمیں وکٹوں کی بیلز کی راکھ کے حوالے بنی ہوئی ٹرافی حاصل کرنے کیلئے اس قدر پرجوش اور جذباتی کیوں نہیں کرکٹ کے شائقین کی دلچسپی کے پیش نظر ایشنز سیریز شروع ہونے کے عوامل اور تاریخ پر روشنی ڈالنا بے حد ضروری ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی جنگ 144 سال سے جاری ہے۔ اس معرکہ آرائی کو تقویت 28 اگست 1882ء کو اوول کے تاریخی میدان میں ایک سنسنی خیز اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد انگلینڈ کو بدترین اور شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اگر چہ آسٹریلوی ٹیم نے 1880ء میں کپتان مدر ڈہیوس کی قیادت میںا نگلینڈ کا دورہ کیا ۔انگلینڈ کے بابائے کرکٹ ڈاکٹر ڈبلیو جی جی گریس کی شاندار سنچری کی بدولت انگلش ٹیم نے پانچ وکٹوں سے کامیابی حاصل کی جو انگلینڈ کی سرزمین پر میزبان ٹیم کی پہلی کامیابی تھی۔ تاہم 1882ء میں آسٹریلوی ٹیم کپتان بل اوڈورچ کی قیادت میں ایک بار پھر انگلینڈ کے دورے پر آئی بارش سے متاثرہ میچ میں انگلش باؤلروں کی تباہ کن باؤلنگ کے باعث آسٹریلوی ٹیم صرف 63 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ انگلش ٹیم بھی معیاری بیٹنگ نہ کر سکی اور صرف 123 رنز بنا سکی۔آسٹریلوی ٹیم نے دوسری اننگ میں صرف 122 رنز پر آؤٹ ہو کر میزبان ٹیم کو جیت کیلئے صرف 85 رنز کا ٹارگٹ دیا ‘ انگلش ٹیم نے تین وکٹوں پر 50 رنز بنا لئے۔ اگرچہ ٹیم کی جیت آسان نظر آ رہی تھی کہ اچانک آسٹریلوی باؤلروں نے تباہ کن باؤلنگ کر کے میچ کا پانسر پلٹ دیا جب انگلش ٹیم کی جیت 19 رنز دور تھی تو اس کی پانچ وکٹیں گر چکی تھیں جب سکور 75 رنز پر پہنچا تو اس کی آٹھ وکٹیں گر چکی تھیں انگلش ٹیم 85 رنز کے تعاقب میں 77 رنز پر آؤٹ ہو کر واپس پیویلین پہنچ گئی ۔
مہمان ٹیم نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد سات رنز سے کامیابی حاصل کر لی۔ آسٹریلوی باؤلر فریڈ رک ہودررتھ نے تباہ کن باؤلنگ کر کے چودہ وکٹیں لیکر انگلینڈ کی اس کی اپنی سرزمین پر شرمناک شکست سے دوچار کر کے برطانوی پریس کو طوفان اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ انگلش پریس نے انگلش ٹیم کی شرمناک شکست کی خبر کو شائقین کے جذبات کا جنازہ کے عنوان سے شائع کیا ۔برطانوی پریس نے اپنے تبصروں میں لکھا کہ اب انگلش ٹیم کو اپنی وکٹیں جلا کر اس کی راکھ آسٹریلوی ٹیم کے حوالے کر دینی چاہئے اگر چہ برطانوی عوام اور پریس کی یہ خواہش برطانوی ٹیم یا کوئی جذباتی تماشائی پوری نہ کر سکا ۔تاہم اگلے ہی سال انگلش ٹیم آئیو ور بلائی کی قیادت میں آسٹریلیا کے دورے پر روانہ ہوئی۔ اگرچہ چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کا پہلا میچ آسٹریلیا نے جیت لیا لیکن انگلش ٹیم نے دوسرا تیسرا اور چوتھا ٹیسٹ میچ جیت کر سیریز 3-1 سے اپنے نام کر لی لیکن چوتھا ٹیسٹ سرایشنز کا بنیاد بنا یہ میچ انگلینڈ نے69 رنز سے جیت لیا ۔
اس میچ کے اختتام پر دو آسٹریلوی دو شیزائیں جو وکٹوریہ شہو سے تعلق رکھتی تھیں ۔شیرنیوں کی طرح گراؤنڈ میں داخل ہوئیں وہ وکٹوں کی ایک ایک بیل اُٹھا کر گراؤنڈ سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئیں ۔یہ واقعہ اس قدر اچانک ہٹوا کر ہزاروں تماشائی اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ ان دو دوشیزاؤں میں سے ایک دوشیزہ لارنس روز نے بیلز کو آگ لگا کر اس کی راکھ جمع کی اور اسے ایک خوبصورت سرخ مخمل کے غلاف میں لپیٹ کر انگلش ٹیم کے رہائش والے ہوٹل میں چپکہ بیلز کی راکھ انگلش ٹیم کے کپتان آئیو ور بلائی کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ معمولی سی راکھ ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے انگلش ٹیم ہزاروں میل کا سفر طے کر کے آسٹریلیا پہنچی ہے۔ یہی واقعہ ایشنز سیریز کی بنیاد ثابت ہوا۔ اس واقعہ کا طربیہ پہلو یہ ہے کہ کچھ ہی عرصے کے بعد آسٹریلوی دوشیزہ لارنس روز مرضی نے انگلش کپتان نہ آئیو ور بلائی سے شادی رچالی۔ اس حسین جوڑے نے آسٹریلوی وکٹوں کا خاکہ ان تمام زندگی اپنے پاس محفوظ رکھا جب انگلش ٹیم کے کپتان 1927ء میں وفات پا گئے تو اس کی آسٹریلوی بیوی لارنس روز مرضی نے آسٹریلوی وکٹوں کی بیلز کی راکھ کے خاک ان کو ایک خوبصورت ٹرافی کی شکل دیکر لند ن میں آئی سی سی کے حکام کے حوالے کردی جو آئی سی سی کے سابقہ صدر دفتر لارڈز کے میوزیم میں رکھ دیا گیا جو آج تک وہاں محفوظ ہے۔ اگرچہ یہ ٹرافی ایشنز سیریز جیتنے والی ٹیم کو نہیں دی جاتی۔ تاہم فاتح ٹیم اس امر پر خوشی محسوس کرتی ہے کہ وہ ایشنز سیریز کرکٹ ٹرافی جیت کر اپنی ٹیم کی خوشیوں میں اضافے کا باعث بنی ہے۔