’سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں شاعر مشرق نے کیا حقیقت بیان کر دی ،ازل سے یہ یہی ہو رہا ہے اور ابد تک جاری رہے گا ، انسان کے لئے قدرت نے کیا نہیں کیا ،ہدائت کے واسطے انبیاء بھیجے،کتابیں نازل کیں،جینا سکھایا ،مگرحضرت انساں نے اپنے ہاتھوں ایسے کانٹے دار راستے بنائے جن پر چلنے سے جسم اور روح میں چھید ضرور پیدا ہوتے ہیں ، انسان اس کا الزام ایک دوسرے پر دھر کرخود کو تسلی دینے لگتا ہے ، مگر جو کرو گے سو بھرو گے ،دین ہی کو لے لیں ،اس میں تو خیر ہی خیر ہے ،مگر اس کے نام پر جو ہوتا ہے ،اس میں کوئی دین والی بات ثابت کر دے ،معیشت میں جو ہوتا ہے اس میں سے کوئی معاشی اصول نکال کر بتا دے ،غرض ان دونوں کاذکر اس لئے کر دیا کی اب سکوں کوغارت کر نے میںن کاکردار بہت ہے ،باقی سیاست ہو ،ثقافت ہو ،کھیل ہو یا معاشرت نام ہی رہ گئے ہیں روح کہیں نہیں ہے ،سری لنکا کے شہری کا جو سانحہ ہوا اور جو اب تک اس کی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں ،اس کے عالمی اثرات کا ذکر نہ بھی کریں مگر یہ سن سن کان پک گئے ہیں کہ بہت بد نامی ہوئی ،نیک نامی والے واقعات تو بتائے جائیں ،بدنامی بے چاری خواہ مخواہ بدنام ہو رہی ہے ،اردو میں اس سے بڑا لفظ تلاش کرنے کی ضرورت ہے،ایسا کیوں ہوا ہے یہ مرغی اور انڈے والی بحث ہے ،مگر ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اجتماعی غلطی موجود ہے،اب کوئی راز نہیں ہے کہ انتہا پسندی کی سوچ کب اور کہاں پیدا ہوئی اور کس نے اس کو پروان چڑھایا ہے ،مفاد کے نام پر جو ’پنے ‘‘ لکھے جاتے ہیںا ور ان کو زبردستی مسلط کیا جاتا ہے تو پھر کبھی ردعمل اور کبھی خود سری سے گروہ بن جاتے ہیں ،یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے ان کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر ان سے لڑا جاتا ہے ،یہی گزشتہ دہائیوں
سے ہو رہا ہے ،بنانے اور بگاڑنے کے اس شوق نے نتیجہ پیدا کیا ہے کہ ریاست کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا جواب دینا مشکل ہوتا جا رہا ہے ،اس میں سازشیں تلاش کرنے کی بجائے ’گھر ‘درست کرنے کی ضرورت ہے شائد اب بھی وقت ہے کہ ہر فرد ’آئین‘‘ میں درج اپنے رول تک خود کو محدود کرئے ،اس انتہا پسندی سے باہر آنے کا بس یہی ایک راستہ بچا ہے ،ورنہ کس ،کس کو روکیںگے اور کس ،کس کی زبان بند کریں گے ،لاوڈ سپیکر کے بعد ٹیپ ریاکاڈر ، اور اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ،بھانت بھانت کی بولیاں ،اب صرف آئین کی پاسداری اور اس پر عمل پیہم سے ہی دفاع ہو سکے گا ،انتہاپسندی کے رنگ روپ تیکھے تو ہیں ہی ،معیشت بھی کو ئی اچھی خبر نہیں دے رہی ،مشیر خزانہ کا ایک ٹویٹ دیکھا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اچھی خبر ہے کہ سعودی عرب سے تین ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں جمع کرا دئے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ 1.2بلین ڈالرتیل کی خرید کاپیکج بھی مل گیا،’’سرکاریوں‘‘ نے اس قبل آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر ملنے اور قرضہ پیکج بحال ہونے پر کافی جشن منایا اور کہا کہ مہنگائی تو بس کرونا کی وجہ سے ہے،پاکستانی گوشت کی ایک کھیپ اردن پہنچ گئی ہے،کاغذوں کو دیکھا جائے تو اور بہت سی اچھی خبریں بیان کی جا سکتی ہیں ،مگر انھی اچھی خبروں کے ہوتے ہوئے سٹاک مارکیٹ نے کریش کیا ،سارے سیکٹر اس وقت پریشان ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ کہا تو یہ جاتا رہا ہے کہ بزنس کو آسان کر رہے ہیں مگر حقیقت میں اس کے بر عکس ہو رہا ہے ،اس کی مثال سمجھ لیں کہ حال ہی میں ایف بی آر نے یک طرفہ طور پراپرٹی کی ویلیو میں چھ سے سات سو گنا اضافہ کر دیا جس کی وجہ سے مارکیٹ کے اندر ہیجان پیدا ہو گیا ہے ،حکومت نے تعمیراتی پیکج دے کر کنسٹرکشن کی صنعت کو چلانے کی کوشش کی تھی ،اس کے ابھی اثرات آنا باقی ہین تو اچانک ایف بی آر نے نوٹفیکشن جاری کر کے کئے کرائے پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے ،اب جب سیل ہی نہ ہو سکے گی اور نہ پر چیز کا عمل ہو سکے گا تو تعمیراتی ادارون کے اربوں روپے پھنس جائیں گے ،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ، کہ کوئی قدم مشاورت سے کیوں نہیں اٹھایا جاسکتا ،کیا یہی کرنا ہے کہ پہلے قدم اٹھا لیا اور پھر ساری خرابی پیدا کر کے اس پر نظر ثانی کر لی جائے یہ کو ئی اچھی حکمت عملی نہیں ،اگرچہ یہ امر بھی درست ہے کہ ملک میں ٹیکس کے مقصد کے لئے ویلیو مارکیٹ کے تناسب سے بہت کم ڈکلئر کی جاتی ہے مگر اس بحیرہ عرب کو راتوں رات پاٹا نہیں جا سکتا ہے ،اس سے کہیں اچھا عمل یہ ہو گا کہ آپ منی بل لانا چاہتے ہیں ،اسے میں ایک تدریجی عمل کے ساتھ آئندہ کئی برسوں کے لئے تدریجی عمل کے ساتھ بڑھتی ہوئی ویلیو کو ڈال دیا جائے ،اس طرح وقت کے ساتھ ویلیو کو مارکیٹ کے مساوی لانے کا عمل پورا ہو جائے گا ،بہ صورت دیگر مارکیٹ تباہ ہو جائے گی ،پہلے ہی پی او ایس سسٹم کی وجہ سے تاجر برادری کے اندر بے چینی موجود ہیں ،یہ ذہن میں ہونا چاہے کہ کرونا کی ایک نئی قسم سر اٹھا رہی ہیں،منی بجٹ میں تین سے پانچ سو ارب روپے کا نیا بوجھ عوام کی جانب منتقل کیا جانے والا ہے ،اس طرح کے ماحول میں ہر سیکٹر کو پریشانی سے دوچار کرنا اکوئی اچھا طرز عمل نہیں ہے ،ایف بی آر کو اپنی ویلیوبڑھانے کے فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہئے، ایک ضمنی الیکشن کا ذکرضروری ہے جو لاہور کے حلقہ این اے133میں ہوا ہے جس میں مسلم لیگ ن کی مسز شائستہ پرویز ملک کامیاب ہوئی ہیں ،اس الیکشن کا ایک مثبت پہلو پی پی پی کی باعزت ہار ہے ،اس حلقے میں عام انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار کو5ہزار ووٹ ملے تھے جو ضمنی انتخاب میں بڑھ کر 32ہزار ہو گئے ، نتائج سے یہ ضرور اشارہ ملتا ہے کہ پی پی پی کی پوزیشن بحال ہورہی ہیں ، اس حلقے میں ہی نہیں بلکہ وسطی پنجاب کے تمام حلقوںمیں کام کو جاری رکھنا چاہئے ۔
سکوں محال ہے !
Dec 07, 2021