سند ھ اسمبلی: سیلاب تباہ کاریوں سے متعلق تحریک التوا پر بحث کا سلسلہ جاری


کراچی (نیوز رپورٹر)سندھ اسمبلی میںمنگل کو دوسرے روز بھی صوبے میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق پیش کردہ تحریک التوا پر بحث کا سلسلہ جاری رہا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے متعدد ارکان نے حصہ لیا۔ایم کیو ایم کی رکن منگلا شرما نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب ہو یا بارش یہ تمام قدرتی آفت ہیں جنہیں کوئی نہیں روک سکتا لیکن مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت متاثرہ علاقوں میںتمام لوگ پریشان ہیں،حکومت نے ضرور کچھ دیا ہوگا لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا عوام تک وہ پہنچا تھا۔لوگ قطاروں میں میں کھڑے تھے لیکن ان کوامدادی سامان نہیں ملا۔جہاز کے جہاز بھر کر آئے تھے۔لیکن لوگوں تک امداد کیوں نہیں پہنچی؟کیا ایسی پلاننگ کی گئی ہے کہ دوبارہ ایسا سیلاب آیا تو لوگوں کو نقصان سے بچایا جاسکے ۔ سندھ میںیو این کے سیکریٹری جنرل بھی صورتحال دیکھ کر گئے۔کیا تمام ملکی اور غیر ملکی فنڈز کو درست طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے ۔جی ڈی اے کے رکن شہریار مہرنے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مثبت تنقید کی جائے۔انہوں نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ نہیں کہیں گے آپ نے ڈوبایا ہے۔لیکن ہم یہ ضرور کہیں گے کہ آپ نے صوبے کو بچایا نہیں ہے۔14سال سے صوبے کا کنٹرول آپ کے پاس رہا ہے۔کیا صوبہ ڈپٹی کمشنر چلا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو دو ارب روپے ڈپٹی کمشنر اٹھا کرلے گئے حالانکہ ڈپٹی کمشنر کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایک میٹنگ میں میں خود بھی ذاتی طور پر موجود تھا وہاں کہا گیا کہ ٹینٹ نہیں مل رہا ہے۔93 افراد شکار پور میں جاں بحق ہوئے۔وزیر اعلی کہتے تھے 86 ہزار ٹینٹ تھے لیکن ملے کیوں نہیں ۔ہمیں میٹنگز میں کیوں نہیں بلایا گیا۔شہر یار مہر نے کہا کہ اس وقت بھی آپ نے سیاست کھیلی اورآپ نے اس وقت کرپشن بھی کی۔اس ساری تباہی کی ذمہ دارحکومت سندھ ہے ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ آب پاشی کے لوگ جنریٹرز کا ڈیزل کھا جاتے تھے۔آفیسرز غائب تھے۔آب پاشی محکمہ کا پیسہ لگتا نہیں ہے۔ابھی بھی خیر پور، فیض گنج میں پانی کھڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ پانی تو دھوپ سے بھی سوکھ نہیں پارہا ہے۔محکمہ صحت سے کہا گیا کہ اسپرے کرا دیں۔ہمارے ضلع میں ملیریا سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔لوگوں کی شکایت تھی ادویات نہیں ہیں ،200 ارب کا محکمہ صحت کا بجٹ کہاں گیا۔ادویات کہاں جاتی ہیں۔جو بھی کمیٹیاں بنائیں اس میں اپوزیشن کو بھی رکھیں۔پیپلز پارٹی کی ندا کھوڑونے اپنی تقریر میں کہا کہ سندھ میں33 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں،سندھ میں سیلاب کی تباہی کی کوئی مثال نہیں مل سکتی ،جو گھر تباہ ہوئے وہ غریبوں کے تھے۔پیپلز پارٹی غریبوں کی جماعت ہے۔ان کی بحالی ہمارے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف ملیریا اور ڈینگی کے ہزاروں کیسز سامنے آئے۔بین الاقوامی دنیا نے مانا کہ کم ریسورسز میں بہت کام کیا۔وزیر اعلی نے خود تمام اضلاع میں دورہ کیا۔لاڑکانہ میں 83 ہزار ٹینٹ تقسیم کیے گئے ۔انہوں نے کہا کہ سیلاب کے زمانے میںجیسے حالات تھے اس میں سندھ حکومت نے کافی ریلیف پہنچایا۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن سعیدیہ جاوید نے اظہار خیال سندھ میں بارشوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے تھے ،سندھ میں بارش سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ،کپاس کی 50 کی فیصد سے زائد فصل تباہ ہوگئی۔یا وہ شارٹ مارچ میں خرچ ہوئے۔بلاول بھٹو کی کامیاب خارجہ پالیسی کی وجہ سے پوری دنیا نے پاکستان کی طرف توجہ دی۔ عوام کو سنہری خواب دکھانے والے صرف ٹیلی تھون پر بیٹھے رہے۔جی ڈی اے کا رفیق بھانبھن نے کہا کہ ہمیں محکمہ آب پاشی نے ڈبویا ہے۔ہر چیز ڈوب گئی حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی خیر پور نہیں آئے اگر آئے تو ڈی سی آفس میں آئے تھے۔تین ماہ گزر گئے ابھی تک پانی نہیں نکالا گیا ہے۔خیر پور میں تین ڈپٹی کمشنر تبدیل کئے گئے۔ہمارے ضلع میں صرف ایک مشین تھی جس سے پانی نکالا گیا۔آپ وڈیروں کو راشن دیتے تھے ،غریبوں کو راشن نہیں ملا۔بارشوں میں نہ ادویات ملی اور نہ ڈاکٹر دستیاب تھے۔انہوں نے کہ کہ سیلاب پر سیاست کی گئی۔فیض گنج کیا سندھ کا حصہ نہیں ہے ۔صوبائی وزیر شہلا رضا نے تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے بعد کیمپوں میں صرف پیپلز پارٹی کھڑی تھی۔کراچی میں بھی سیلاب متاثرین آئے ،ہم رات میں ہر کام کرتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے لوگوں کی مدد سے راشن ، دریاں بھیجیں۔حکومت اکیلے کچھ نہیں کرسکی تھی۔ اپوزیشن والے گھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ شہلا رضا نے کہا کہ پنجاب میں بیٹھ کر یہ کہا گیا۔جو امداد آئے گئی وہ ہم سندھ کو نہیں دیں گے۔یہ عوام دشمنی تھی یا پیپلز پارٹی دشمنی تھی؟۔انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔انہوں نے بہترین سفارت کاری کی۔ہم ہر مصیبت میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے ۔ہم نے 2010 میں بھی لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ہم ابھی لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔بعدازاں سندھ اسمبلی کا اجلاس بدھ کی دوپہر تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن