وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ روس کا دورہ ہماری امیدوں سے زیادہ کامیاب رہا ہے۔ روس پاکستان کو رعایتی قیمت پر تیل اور ڈیزل فراہم کریگا۔ سرکاری ایل این جی کے معاہدوں اور بعض روسی کمپنیوں سے ایل این جی کے حصول کیلئے بات چیت طے ہو گئی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت نے بتایا کہ توانائی معاہدوں پر پیش رفت کیلئے روس کا سرکاری وفد آئندہ ماہ جنوری میں پاکستان کا دورہ کریگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے انسانی بنیادوں پر دو ملین پائونڈ کی ایل این جی دینے کا اعلان کیا ہے جس پر بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ یہ ایل این جی آئندہ دس یوم کے اندر اندر پاکستان آجائیگی۔
ڈاکٹر مصدق ملک نے اپنے دورۂ روس کے پس منظر سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم شہبازشریف کے نوجوانوں کو روزگار دینے کے وژن کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے روس کا حالیہ دورہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ کوئی کارخانہ بند نہیں ہونا چاہیے‘ کوئی نوجوان بے روزگار نہ ہو اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا رہے کیونکہ معیشت آگے بڑھے گی تو نوجوانوں کو روزگار ملتا رہے گا۔ انکے بقول گیس پائپ لائن پر کچھ ہمارے پرانے معاہدے تھے‘ ان پر بھی روس کی طرف سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے اور ہم نے روس سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں کچھ لچک کا مظاہرہ کرے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں ہر سال گیس کے ذخائر آٹھ سے دس فیصد کم ہو رہے ہیں اور اس وقت ایل این جی کا پریشر بہت زیادہ ہے۔ روس ہمیں رعایتی نرخوں پر ڈیزل اور خام تیل بھی دیگا۔ اس پر ہماری بات چیت طے ہو چکی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ طاس معاہدہ کے تحت ہماری جانب سے اپنے حصے کے ڈیمز تعمیر کرنے میں سستی اور روایتی غفلت کا مظاہرہ کرنے کے باعث ہماری ہائیڈل بجلی کی پیداوار میں بتدریج کمی واقع ہونے لگی جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی ڈیمانڈ بھی بڑھ گئی چنانچہ رسد اور طلب میں نمایاں فرق پیدا ہوگیا۔ متعلقہ اداروں اور حکومتوں کی ڈیمز تعمیر نہ کرنے کی عاجلانہ پالیسی کے باعث ہی تین دہائیاں قبل ملک میں توانائی کے بحران کا آغاز ہوا جو آج انتہائی گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے ادوار حکومت میں توانائی کے بحران سے نکلنے کیلئے نجی سطح پر مہنگے تھرمل پاور پلانٹس اور رینٹل پلانٹس پر انحصار کیا گیا جو ایک تو ملک میں بجلی کے نرخوں میں اضافے کا باعث بنے اور دوسرے ان پاور پلانٹس کے ذریعے بجلی کی مطلوبہ پیداوار بھی حاصل نہ ہو سکی جبکہ اپنی لاگت وصول کرنے کی خاطر تھرمل کمپنیوں کے مالکان پاور پلانٹس بند کرکے حکومت کو بھی بلیک میل کرتے رہے اور ملک میں توانائی کا بحران بڑھانے کا بھی باعث بنتے رہے۔ چنانچہ میاں نوازشریف کے گزشتہ دور حکومت میں قطر سے ایل این جی کے حصول کا معاہدہ کیا گیا اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے ذریعے گیس کے حصول کا معاہدہ طے پایا۔ بدقسمتی سے یہ دونوں معاہدے عملی قالب میں نہ ڈھل سکے۔ قطر سے طے پانے والا معاہدہ سیاست کی نذر ہو گیا جبکہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدہ میں امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی گئی پابندیاں حائل ہو گئیں۔ ایران نے تو اپنے حصے کی ساری پائپ لائن بچھا دی مگر پاکستان کی کسی بھی حکومت کو امریکی دھمکی کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوئی چنانچہ یہ معاہدہ آج تک پاکستان کو اپنے ثمرات سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح ہم مقامی‘ علاقائی اور عالمی سیاست کے گھن چکروں میں الجھ کر توانائی کا بحران گھمبیر سے گھمبیر تر بناتے چلے جا رہے ہیں۔ اسکے برعکس ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے نہ صرف اپنے دریائوں پر ڈیمز کے انبار لگا کر توانائی میں خودکفالت حاصل کی بلکہ اس نے روس اور دوسرے وسطی اشیائی ممالک سے سستی گیس کے حصول میں بھی خاصی پیش رفت کی ہے۔ پاکستان کو توانائی کے بحران کا شکار کرنا اور اسے پانی کی قلت سے دوچار کرکے بھوکا پیاسا مارنا درحقیقت بھارت ہی کا ایجنڈا ہے جس کی ہمارے حکمران خود ہی تکمیل کرتے رہے ہیں۔
اس بحران کی سزا تو درحقیقت عوام کو ہی بھگتنا پڑتی ہے جو بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی برداشت کرتے ہیں اور انہیںبجلی گیس کے بھاری بلوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ توانائی کے بحران کے نتیجہ میں صنعتوں کا پہیہ رکتا ہے تو ملک میں بے روزگاری کا طوفان بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء کی پیداوار بھی رک جاتی ہے اور کھیتوں میں نقدآور اجناس کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے نتیجتاً ملک کی معیشت بھی ترقی ٔ معکوس کی جانب گامزن ہو جاتی ہے۔
پی ٹی آئی کے سابقہ دور حکومت میں سیاسی منافرت کی فضا گرمائی گئی تو اسکے منفی اثرات ملک کی معیشت اور عوام کی زندگیوں پر بھی مرتب ہوئے۔ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی شرائط پر عملدرآمد روک دیا تو قومی معیشت کا بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہونا بھی مشکل ہو گیا جس کے بعد عمران خان روس کے دورے پر گئے تو یوکرائن کے ساتھ روس کی جنگ کے آغاز کے باعث یہ دورہ انکے گلے پڑ گیا۔ عمران خان یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ سستی گیس کے حصول کیلئے روس گئے تھے جو امریکہ کو ناگوار گزرا اور اس نے انکی حکومت گرانے کی سازش تیار کرلی۔ انکی حکومت کے خاتمہ کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ عمران خان کے دورہ روس کے دوران نہ تو روس نے پاکستان کو سستی گیس کی فراہمی کی کوئی پیشکش کی اور نہ ہی روس کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ طے پایا اور الٹا اس دورے کے نتیجے میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری آگئی۔ اسے یقیناً ہماری قومی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
اب اگر وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کے دورۂ روس کے نتیجہ میں ہمیں روس کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے محسوس ہو رہے ہیں اور اسی طرح ایران کے ساتھ بھی گیس اور ڈیزل کے حصول میں پیش رفت ہو رہی ہے تو اس سے بادی النظر میں ہماری قومی خارجہ پالیسی درست سمت کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ ہمیں بہرحال اپنے مفادات ہی عزیز ہیں جن پر کوئی ٹھیس لگنے کی نوبت نہیں آنے دینی چاہیے اور اقوام عالم میں برابری کی بنیاد پر خطے کے ممالک کے ساتھ ساتھ ہمیں دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے حالات سازگار بنانے چاہئیں۔ ہم توانائی کے بحران سے عہدہ برأ ہو کر ہی ملکی معیشت کو سنبھال سکتے ہیں اور عوام کی اذیت کم کر سکتے ہیں۔