اگر ہم نہ سدھرے؟۔۔۔ 


مغرب، چین اور بھارت بذریعہ خلائی انٹرنیٹ آن لائن کاروبار پر قبضہ کرچکے ہیں، ان کے فاریکس ذخائر سینکٹروں نہیں ہزاروں ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جبکہ ہم بھی کتنے کم عقل اور کج فہم ہیں کہ ابھی تک آئی ایم ایف کے شکنجے سے ہی نہیں نکل پائے ہیں، سات دہائیاں گزر گئیں لیکن ہمارا پرنالہ وہیں کا وہیں ہے، اکثریتی عوام بجلی پانی گیس کی قلت میں ہی اٹکے ہوئے ہیں، روز کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی بھاری بھرکم بلوں اور مہنگی ادویات نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے لیکن کہیں سے ان کیلئے کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا ہے، 
سب سے تکلیف دہ امر تو یہ بھی ہے کہ آج کی تاریخ میںججوں کی قلت سے لاکھوں کیس پاکستان کی عدالتوں میں لٹکے ہوئے ہیں ، اعلیٰ  عدلیہ ہو یا ماتحت عدالتیں سست و پیچیدہ عدالتی نظام نے عوام کو دہلیز پر جلد انصاف کی فراہمی کی تمام امیدیں مٹی میں ملا دی ہیں،
ملک کے انتظام پر نظر دوڑائیں تو سیاستدان اور ادارے وطن کا کنٹرول سنبھالنے کی خاطر کھلم کھلا جنگ میں مصروف نظر آتے ہیں، کچھ قبضہ گروپ سیاسی آزادی اور نجات کی فلم چلاکر اپنا دال دلیہ کررہے ہیں،مبینہ غلامی سے نجات اور حقیقی آزادی نامی جعلی نعروں کی اندھا دھند پیروی کرنیوالوں کو کون سمجھائے گا کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ پہلے ہی اتنا آزاد ہے کہ مغرب والے ہکا بکا ہیں۔
 میرے وطن میں کوئی ایسا سماجی سیٹ اپ یا کوئی ایسا سیاسی نظام موجود نہیں ہے جو معاشرے کی بے ضابطگیوں کو روکے، کرپشن کو قابل نفرت بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے، امن رواداری اور خوشحالی کو مہمیز لگائے، جس کی وجہ سے بابرکت جوائنٹ فیملی سسٹم تیزی سے دم توڑ رہا ہے لیکن مجال ہے کہ حکومتی اور سماجی سطح پر اس کو بچانے کیلئے نمک کے برابر ہی کوئی کوشش کی جارہی ہو۔
 نہایت ہی افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ عدالت میں وکیل کے سیاہ گائون نہ پہننے پر فوراً ہی توہین عدالت ہوجاتی ہے لیکن فراہمی انصاف کے عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت نہیں کبھی نہیں ہوتی ہے،کیسوں کی سماعت کے دوران تاخیری حربے استعمال کرنے والوں کے خلاف کبھی کوئی توہین عدالت کا نوٹس تک جاری  نہیں کیا جاتا ہے، غیر معینہ مدت تک لٹکے رہنے والے کیسوں کی وجہ سے رشتہ داریاں ہمیشہ کیلئے ٹوٹ جاتی ہیں، آج تک نہیں سنا کہ کبھی جھوٹی ایف آئی آر کٹوانے والے کو سخت سزا دیکر نشان عبرت بنایا گیا ہو، قبضہ مافیا تو ایسے من مانیاں کرتا ہے کہ جیسے قائد اعظم نے یہ ملک انھی کیلئے بنایا ہو،کرپشن کے الزامات لگا کر دوسروں کی ساکھ مجروح کرنے کے الزامات لگانے والے کو سیاسی بیان کہہ کر معاف کردیا جاتا ہے۔
یہ وہ ملک ہے جہاں خزانہ لوٹنے کی کھلی آزادی ہے، جہاں نفرت کے تیر چلا کر امن و امان کو قتل کرنے سے آپ کو کوئی روک نہیں سکتا ہے، کاروباری حسد اس قدر شدید ہے کہ حکومتی ہسپتال ( پی کے ایل آئی ) تباہ کردیا جاتا ہے لیکن کوئی مجرموں سے بازپرس نہیں کرسکتا ہے۔
کیسا ملک ہے یہ، جہاں بہنوں کے حصے مارنے، تارکین وطن، یتیموں اور بیواؤں کی اراضی یا مکان پر قبضہ کرنے کیلئے مافیاز عمل قبیح کی عملداری میں دن رات مصروف عمل ہیں، مجال ہے کسی قانون نافذ کرنیوالے ادارے نے اپنے فرض کو نبھایا ہو یا پھر کسی عدالت نے اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے کسی کو بروقت انصاف مہیا کیا ہو، کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ انصاف کے پتلے کی آنکھوں پر سیاہ پٹی مکمل طور پر ہمارے معاشرے کی عکاسی ہے، یعنی ہر بندہ کچھ بھی کرے عدالتوں کی آنکھیں بند ہیں۔
دنیا نئے سیارے آباد کرنے کی تگ و دو کررہی ہے جبکہ ہماری عدالتوں میں آج بھی دادا کیس دائر کرتا ہے تو فیصلہ اس کا پوتا ہی سنتا ہے،اگر ہم نہ سدھرے اور ظلم کے ضابطے ختم نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کو تو نظام ٹھیک کرنے میں دیر نہیں لگتی ۔ 
قرآن پاک میں متعدد واقعات بالصراحت  بیان کئے گئے ہیں جب نافرمانوں کیلئے آسمانوں سے پتھر برسے طوفانوں نے انھیں ڈبو دیا، خوفناک فریکونسی کی آواز نے انھیں بیٹھے بٹھائے موت دیدی اور زلزلوں نے بستیوں کی بستیاں الٹا دیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن