سکولز کی سلسلہ وار مانٹرنگ کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں

کوالٹی آف ایجوکیشن پر کم توجہ دی گئی
ایم ڈی پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن منظر جاویدعلی کا خصوصی انٹرویو
 پچیس لاکھ طلباء اور تقریبا ساڑھے سات ہزار سکول تک ہماری رسائی ہوچکی ہے

 دوران مانیٹرنگ سکول انتظامیہ سے کسی افسر نے کوئی فرمائش کی ہوتو اسے بدعنوانی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے

عیشہ پیرزادہ ایم ڈی پیف منظر جاوید علی سے گفتگو کرتے ہوئے
عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن (پیف) پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والا حکومت پنجاب کا خودمختار ادار ہ ہے جو تعلیمی میدان میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ 2004میں حکومت پنجاب نے اس کی تنظیم نوء کی اور پھر اس ادارے کے ساتھ پرائیویٹ سکولوں کا الحاق کرکے پنجاب کے مستحق طبقات تک مفت اور معیاری تعلیم کے فروغ کا آغاز ہوا۔ پیف کے تحت اس وقت تقریبا ساڑھے سات ہزار سکول  پچیس ہزار طلباء کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
 نوائے وقت تعلیمی ایڈیشن کے لیے ایم ڈی پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن منظر جاوید علی کا خصوصی انٹرویو نذر قارئین ہے جس میں تعلیمی مسائل، اور وسائل دونوں پہلوئوں پر بات کی گئی ہے۔جھنگ سے تعلق رکھنے والے منظر جاوید علی 2005 میں سول سروس سے خدمات کا آغاز کیا.ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سے ڈپٹی کمشنر تک مختلف اضلاع میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔اس کے علاوہ سیکریٹریٹ میں بطور ایڈیشنل سیکرٹری ،ڈپٹی سیکرٹری اور بعدپنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن میںمینجنگ ڈائریکٹر کے فرائض بھی نبھائے۔ورلڈبینک کا ایک پروجیکٹ جو سکلزسیکٹر سے متعلق تھا کی سربراہی سر انجام دیتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائے۔یہی وجہ ہے کہ بہترین صلاحیتوں کے حامل منظر جاوید علی اب پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں جہاں وہ اپنی تعلیمی مہارت اور صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔
نوائے وقت: پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کی کار کردگی مزید بہتر بنانے کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں؟
منظر جاوید علی:میں نے سکول ایجوکیشن ،ہائر ایجوکیشن ،ٹیکنیکل ایجوکیشن میں کام کیا لہذا میں بنیادی طور پر تعلیم کے ساتھ شغف رکھتا ہوں۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم ہی ہے جو انسان کو زندگی کے ہر میدان میں آگے لے کر جاتی ہے ۔
 ایک چیز جس پر کم توجہ دی گئی وہ تھی کوالٹی آف ایجوکیشن۔یہاں رسائی پر فوکس رہا کہ زیادہ سے زیادہ بچے مستفید ہو پائیں لیکن کوالٹی آف ایجوکیشن پر کم توجہ رہی۔ میری کوشش ہے کہ رسائی کو برقرار رکھتے ہوئے کوالٹی مزید بہتر کی جائے۔یہ بڑا چیلنج ہے میرے لیے جسے قبول کیا ہے۔کوالٹی کی بات کریں تو اس میں دو تین وجوہات ہیں۔ مثلاٹیچرز،طلباء کی حاضری اور دلچسپی،اس کے علاوہ ماحول ایسا ہو جس میں بچہ دل لگا کر پڑھے۔لہذا ہم کوالٹی آف ایجوکیشن بہتر بنانے کے لیے تعلیمی مواد، سکول کے انفراسٹرکچراور لیڈر شپ کی ٹریننگ پر کام کر رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ جانچ،پڑتال کا کام بھی جاری ہے تاکہ جان سکیں کہ کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔
سوال: آپ نے کوالٹی آف ایجوکیشن کی بات کی، وہ کیا طریقہ کار ہے جس کے تحت  پیف پارٹنرز(سکولز)کی کار کردگی جانچی جاتی ہے؟
منظر جاوید علی:پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کا مانیٹرنگ کا بہترین نظام ہے جس میں پیف کے افسران پارٹنر سکولوں کا وزٹ کرتے ہیں اور اگر کچھ بے ضابطگیاں وزٹ کے دوران نظر آئیںتو ان کو رپورٹ کر کے سکول کے انتظامی اور تدریسی معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ پہلے سال میں ہر سکول کی دو مرتبہ مانیٹرنگ ہوتی تھی تاہم اب ہر سکول کی ماہانہ مانیٹرنگ کا آغاز کیا گیا ہے ۔ سکولوں کی سلسلہ وار مانیٹرنگ کرنے سے بہت سے مثبت نتائج سامنے ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ سکولوں میں غیر حاضری کا تناسب بہت کم ہوا ہے ۔ سکولوں کی باقاعدہ مانیٹرنگ کرنے سے انفراسٹرکچر کے حوالے سے جو کمی یا خامی ہے اسے تیزی سے دور کیا جا رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پیف اپنے پارٹنر سکولوں کا سال میں ایک مرتبہ کوالٹی ایشورنس ٹیسٹ (QAT) لیتا ہے جسکا مقصد سکولوں میں دی جانے والی تعلیم اور اس کے معیار کو جانچنا ہوتا ہے۔اگر کوئی سکول QATمیں ایک بار فیل ہو جائے تو اس سکول کو ایک اور موقع دیا جاتا ہے اور اگرسکول دوسری مرتبہ فیل ہو جائے تو اس سکول کی آدھی فنڈنگ روک لی جاتی ہے اور تیسر ی مرتبہ فیل ہونے پر سکول کا پیف سے الحاق ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح سکول مالکان بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتے ہیںاور مزید یہ کہ QATکی تیاری کی وجہ سے پیف سے منسلک سکولوں میںپڑھنے والے طالبعلموںکیPECاور بورڈ کے امتحانات میں بھی اعلیٰ پوزیشنز آتی ہیں۔ پیف سے منسلک سکولوں کے اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ہمارے پاس چار ہزار ماسٹر ٹرینرز ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اساتذہ کے لیے آن لائن ٹریننگ پروگرا م کا آغاز بھی کیا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ اساتذہ تک پہنچا جا سکے۔
سوال: یہ بتائیں کہ پیف کے تحت کتنے سکول کام کر رہے ہیں اور کتنے طلباء مفت تعلیم سے مستفید ہو پا رہے ہیں؟
منظر جاوید علی: 2004 سے شروع ہونے والے اس سفر میں آج ہمارے پاس پچیس لاکھ طلباء ہیں اور تقریبا ساڑھے سات ہزار سکول تک ہم پہنچ چکے ہیں۔اس کے علاوہ  تقریبا ایک لاکھ اساتذہ ان سکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ہم نے انٹرپرینیورز پیدا کیے ہیں۔ہمارے ساڑھے سات ہزار سکول ہیں ، دو ہزار سب کیمپس ہیں تو یہ ہمارے انٹرپرینیورز ہیں۔جن کے ذریعے ایک لاکھ اساتذہ کونوکری ملی۔
سوال:یہ بتائیں کہ 2004میں پیف کا ماڈل تبدیل کر کے اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ماڈل کتنا کامیاب ہو اور اس ادارے کو کرپشن سے کیسے پاک رکھا جاتا ہے ؟
 جواب :پیف ایک بہت ہی خوبصورت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل ہے جسکے ذریعے حکومت پنجاب نسبتاً کم خرچ میں حقیقی معنوں میں غریب لوگوں تک معیاری تعلیم کے فروغ کو ممکن بنا رہی ہے۔ اس ماڈل کے تحت پرائیویٹ سکول مالکان کو سکول میں پڑھنے والے بچوں کی فیس حکومت پنجاب اس ادارے کے ذریعے فراہم کرتی ہے۔پیف اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ایسے بچے جن کی فیس ادارے کی طرف سے دی جا رہی ہے سکول مالکان ان بچوں سے کسی بھی قسم کی فیس یا کسی بھی مد میں کو ئی رقم وصول نہ کریںبلکہ سکول میں جو بھی مطلوبہ سہولیات موجود ہونی چاہئیں ان سہولیات کی فراہمی بھی سکول مالکان کی طرف سے یقینی بنائی جاتی ہے ۔اس ادارے کے افسران باقاعدگی سے ہر سکول کا دورہ کرتے ہیں اور کسی بھی قسم کی بے ضابطگی اور سہولیات کے فقدان کی صورت میں وہ چیزیں رپورٹ کی جاتی ہیں جس کے بعد پیف کا ادارہ سکول مالکان سے ان معاملات پر پوچھ گچھ کرتا ہے اور بچوں تک مطلوبہ سہولیات کی فراہمی ممکن ہونے تک جرمانے بھی عائد کرتا ہے۔شاید یہ بات سن کر آپ کو حیرانی ہو گی کہ دوران چیکنگ پیف افسران سکول انتظامیہ سے سادہ پانی بھی طلب نہیں کر سکتے ۔ اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ پیف کے کسی افسر نے دوران مانیٹرنگ سکول انتظامیہ سے پانی اور کھانا کھانے کی فرمائش کی ہے تو اس صورت میں اُس افسر کی اس ضرورت کو بدعنوانی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے اور معاملہ ثابت ہونے پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ان قوانین کے لاگو کرنے کی بنیادی وجہ تعلیم کو بلند کرنا اور سکولو ں میں موجود بچوں تک معیاری اور مطلوبہ سہولیات کا پہنچانا اورشفافیت کو برقرار رکھنا ہے۔
سوال:پیف سے منسلک سکول کہاں کہاں موجود ہیں؟
یہ سکولز پنجاب بھر میں ان علاقوں میں قائم  ہیں جہاں سرکاری سکول موجود نہیں ۔لہذاغریب کو فائدہ پہنچانے کے لیے ایسے پرائیوٹ سکولز ہمارے پارٹنرز ہیں جن کی فیسیں سکول انتظامیہ کی بجائے ہم ادا کرتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ کتابیں بھی فری مہیا کی جاتی ہیں۔ہم نے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کو فروغ دیا ہے۔یہ ایک کامیاب ماڈل کا روپ دھار چکا ہے۔
 

ای پیپر دی نیشن