اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان میں سیاست دان ہمیشہ اپنے سیاسی مفاد کو ملکی مفاد سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ ہر روز اس کی کوئی نہ کوئی مثال ضرور سامنے آتی ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ نہ ذاتی مفادات کو فوقیت دینے والے بدلتے ہیں نہ ہی ان کے حمایتی سمجھتے ہیں، نہ قیادت قومی مفادات کو ترجیح دیتی ہے نہ ان کے ووٹرز سیاسی قیادت کو اس حوالے سے مجبور کرتے ہیں۔ آج ملک جس دورایے پر ہے اور جن بڑے مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کی بہت بڑی وجہ قومی و ملکی مفادات کو نظر انداز کرنا ہے۔ ان دنوں بھی ملک میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔ ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں اس حوالے سے کام کر رہی ہیں اور اپنا اپنا بیانیہ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہے ہیں، نامناسب انداز میں گفتگو کر رہے ہیں، ماضی یاد کروا رہے ہیں، معصوم ووٹرز مولا جٹ کی طرح کے بیانات سے متحرک ہوتے ہیں اور سیاسی قیادت سادہ لوح ووٹرز کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہوئے الیکشن کی طرف بڑھتی ہے اور لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل کی طرف جانے ہی نہیں دیتے۔ دہائیوں سے یہی ہوتا آ رہا ہے کون جانتا ہے کہ آئندہ برس پھر یہی ہو کیونکہ شاعر انقلاب شاعر عوام حبیب جالب مرحوم کے مطابق تو انتخابات کے نتیجے میں صرف وزیروں کے دن ہی بدلتے ہیں۔ عام آدمی تو ہر الیکشن کا بوجھ برداشت کرتے کرتے دنیا سے چلا جاتا ہے۔ حالانکہ سب کو اپنی اپنی حیثیت کا اندازہ بھی ہے لیکن اس کے باوجود سب یہی چاہتے ہیں کہ اکیلے حکومت بنائیں اور اس سیاسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ملکی مفاد کو پس پشت ڈالنا کوئی بڑی بات نہیں، جیسا کہ لیول پلینگ فیلڈ کا بیانیہ ہے، اس بیانیے کا مستقبل یہ ہے کہ اگر نتائج خواہشات یا توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ ہم تو پہلے سے ہی کہتے آ رہے تھے کہ سب کو مناسب مواقع یا سہولیات فراہم نہیں کی گئیں، دھاندلی ہوئی ہے، یوں عام انتخابات کو متنازع بنایا جائے گا اور ہم جمہوری حکومت کی طرف تو چلے جائیں گے لیکن بدستور عدم استحکام کا شکار رہیں گے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی عدم استحکام کا عوام کو فائدہ ہوتا ہے نقصان اور سیاستدانوں کو اس کا فائدہ ہوتا ہے یا نقصان تو اس کا بہت سادہ جواب ہے عدم استحکام سے سیاستدانوں کو فائدہ ہوتا ہے اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اب ایسے بیانات جاری کرنے والوں اور اس پر شدت سے قائم رہنے والوں کو اگر احساس ہو کہ ملک کو مشکلات سے نکالنا ہے تو سیاسی استحکام ضروری ہے لیکن سیاسی استحکام کے لیے کوئی سیاسی جماعت قربانی دینے کے لیے تیار نہیں اور یہی حالات ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ ابھی لیول پلینگ فیلڈ والوں کا شکوہ دور نہیں ہوا مولانا فضل الرحمن نے ابھی سے امن و امان کی خراب صورتحال کا عذر پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ "دو صوبے بدامنی کی لپیٹ میں ہیں، کیا اس صورت حال میں انتخابی مہم چلائی جاسکتی ہے؟ ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، لکی مروت میں پولیس ہی نہیں،رات کو مسلح افراد کا راج چلتا ہے، دن میں پولیس آجاتی ہے جبکہ پشاور میں بھی بدامنی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں لیکن یہ ایک سوال تو ہے، ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں پْر امن انتخابی ماحول دیا جائے۔ لاہور سمیت پنجاب میں ٹھیک صورت حال ہے، ہماری طرف کوئی مہمان آئے تو ہم اسے گھر سے نہیں نکلنے دیں گے۔"
اب مولانا اپنی سیاسی ہار جیت کو دیکھتے ہوئے یہ بھول گئے کہ ان کی اس سیاسی حکمت عملی کا ملک کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے، پاکستان نے دو ہزار دس سے دو ہزار بیس تک جن مشکل حالات کا سامنا کیا ہے اس کے بعد امن و امان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی دل دہل جاتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کو اپنے انتخابات کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ شاید یہ بھول گئے کہ دنیا بھر میں ان کے اس بیان کو کس انداز میں پیش کیا جائے گا اور بالخصوص بھارت اس بیان سے کس انداز میں فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن انہوں نے کتنی بے رحمی سے ملک میں امن و امان کے حالات سے سوالات اٹھا دئیے۔ اب کوئی مولانا فضل الرحمن سے پوچھیں کہ یہ سب کیا ہے، آپ نے کیوں اس حساس موضوع کو چھیڑا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات ایک کر کے ملک میں امن و امان کو قائم رکھنے اور دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر کہیں اکا دکا واقعات ہو رہے ہیں تو اسے مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ لیکن سیاست دان کے لیے انتخابات اور حکومت ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ اگر وہ ملکی مفاد کو اہمیت دیتے تو یقینا ایسی بات کبھی نہ کرتے۔ کاش کہ ہمارے سیاست دان ہر حال میں اقتدار حاصل کرنے کی سوچ سے باہر نکلیں، سیاست کو خدمت سمجھنا شروع کریں، ملکی مفاد کو ترجیح بنائیں اور ملک کو آگے لے کر جانے کے لیے اتحاد کو فوقیت دیں۔ جب تک سوچ تبدیل نہیں ہو گی مسائل حل نہیں ہوں گے۔
آخر میں فاخرہ بتول کا کلام
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اْ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
اور اْس کو جو بھی پوروں سے
نظر سے چھو گیا
پل بھرمہک اْٹھا
دسمبر اب کے آؤ تو
تم اْ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
جہاں پر ریت کئے ذرّے ستارے ہیں
گل و بلبل ، مہ و انجم وفا کے استعارے ہیں
جہاں دل وہ سمندر ہے، کئی جس کے کنارے ہیں
جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی نغمہ سْناتی ہے
دسمبر! ہم سیمت پوچھ ہمارے شہر کی بابت
یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹہری ہے
محبت برف جیسی ہے یہاں، اور دھوپ کھیتوں میں اْگتی ہے
یہاں جب صبح آتی ہے تو شب کے
سارے سپنے راکھ کے اک ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
یہاں جذبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چبھتی ہیں
یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو
ڈبو کر ہم سْنہرے خواب بْنتے ہیں پھر
اْن خوابوں میں جیتے ہیں
اْنہی خوابوں میں مرتے ہیں
دریدہ روح کو لفظوں سے سینا گو نہیں ممکن
مگر پھر بھی
دسمبر! اب کے آؤ تو
تم اْ س شہرِ تمنّا کی خبر لانا
کہیں لیول پلینگ فیلڈ تو کہیں امن و امان کا عذر، یہ کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟
Dec 07, 2023