نیپرا کے ’’بنارسی ٹھگ‘‘

بے بسی کی انتہا ہے۔ منگل کی صبح میرے ہاں اخبارات کا جو پلندہ آیا تھا ان میں سے تقریباََ ہر اخبار کے صفحۂ اوّل پر چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ خبر یہ دی گئی تھی کہ بجلی کی پیداوار اور اس کی ہمارے گھروں تک ترسیل کے نظام کے نگہبان ادارے نے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔طویل تحقیق کے بعد تیار ہوئی اس رپورٹ نے دریافت کیا کہ ملک بھر میں ہمارے گھروں کو بجلی پہنچانے والے تمام ڈسکوز میں سے کسی ایک نے بھی اپنے صارفین کو محاورے والا چونا لگانے سے گریز نہیں کیا۔ اہم ترین ’’واردات‘‘ یہ رہی کہ ہمارے ہاں خرچ ہوئی بجلی کی مقدار کا 30دنوں کے بعد شمار نہیں ہوا۔ جان بوجھ کر میٹرریڈنگ 36یا 37دن گزرجانے کے بعد ہوئی۔اس کی وجہ سے خرچ ہوئے یونٹوں کی تعداد یقینا بڑھ گئی۔30کے بجائے 36یا 37دنوں کے دوران خرچ ہوئے یونٹوں کی قیمت جمع ہوئی تو اسی حساب سے ان پر عائد شدہ بے تحاشہ ٹیکسوں میں بھی ازخود اضافہ ہوگیا۔ یوں بدنصیب صارفین اپنے ہاں ’’ماہانہ‘‘ خرچ ہوئی بجلی کے بجائے 40کے قریب دنوں میں خرچ ہوئی بجلی کی قیمت اور ان پر عائد کردہ ٹیکس ادا کرتے رہے۔
باریک وارداتوں کا سلسلہ یہا ں ختم نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں جو بل آتے ہیں ان میں ایک تصویر بھی لگائی جاتی ہے۔یہ ہمارے میٹر پر ’’خرچ‘‘ ہوئے بجلی کے یونٹوں کی تعداد دکھاتی ہے۔ میٹرریڈر اسے اپنے موبائل فون سے کھینچنے کا پابند ہے اور اسی تعداد کو وہ بجلی کے ریکارڈ میں بھی درج کرتا ہے۔گزشتہ چند مہینوں سے لیکن چند علاقوں میں میٹرریڈر کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ تصویر کو جان بوجھ کر ’’دھندلا‘‘ رکھے۔اس کی وجہ سے فرض کیا ہم نے گزرے ماہ میں 309یونٹ خرچ کئے تھے تو وہ تصویر میں ’’809‘‘ہوئے بھی دکھ سکتے ہیں۔ہمارا بل بناتے ہوئے 809کا عدد ہی شمار کردیا جائے گا۔ہم اس کے بارے میں حیران ہوجائیں۔اپنے میٹر سے رجوع کرنے کے بعد متعلقہ دفتر جاکر محض 309یونٹ خرچ کرنے پر ہی اصرار کریں تو ڈسکو والے ہمارے دعویٰ سے متفق نہیں ہوں گے۔اپنے ’’ریکارڈ‘‘ کے مستند ہونے پر اصرار کرتے ہوئے اس شبے کا اظہار کریں گے کہ شاید ہمارے ہاں نصب ہوا میٹر خراب ہے۔’’خراب‘‘ ٹھہرائے میٹر کو بدلنا ڈسکو کی ذمہ داری ہے۔صارف اس کو اپنے تئیں ’’درست‘‘ کرنا چاہے تو اس پر بجلی چوری کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔ڈسکو والے خراب ٹھہرائے میٹر کو مگر بروقت تبدیل کرنے کی زحمت نہیں اٹھاتے اور ہم 309سے 809بنائے یونٹوں کی قیمت ادا کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں ۔وگرنہ’’عدم ادائیگی‘‘ کی وجہ سے ہماری بجلی کاٹ دی جائے گی۔
یہ کالم پڑھتے ہوئے آپ کو 30دن کے بجائے 36یا 37دن بعد ہوئی میٹر ریڈنگ یا کسی ’’تکنیکی‘‘ خرابی کی وجہ سے 309یونٹوں کا 809ہوجانا ’’معمولی کوتاہی ‘‘ محسوس ہوگی۔بجلی کی پیداوار اور اس کی ہمارے گھروں تک ترسیل کے نظام کے نگہبان ادارے یعنی نیپرا نے اطلاع مگر یہ بھی دی ہے کہ مذکورہ ’’چھوٹی چھوٹی غلطیوں‘‘ کی بدولت ہمارے ہاں بجلی پہنچانے والے اداروں نے ہزاروں ارب روپے میرے اور آپ کی جیبوں سے نکال لئے ہیں۔
نیپرا کا تہہ دل سے شکریہ۔ ان کی تحقیق سے ہمیں خبر مل گئی کہ مختلف شہروں میں قائم ڈسکو صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی کے حیران کن ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں۔ نام نہاد ڈیجیٹل دور میں اختیار کئے ان ہتھکنڈوں نے مجھے دو صدیاں قبل ہمارے خطے میں متحرک ’’بنارسی ٹھگوں‘‘ کی یاددلادی۔برطانیہ اگرچہ ایک سامراجی قوت تھی۔ہمیں اپنا غلام بنارکھا تھا۔ اس نے بھی لیکن ’’رعایا‘‘ کو اطمینان دلانے کے لئے ’’بنارسی ٹھگوں‘‘ کا قلع قمع کرنے کی ٹھان لی۔ انہیں عبرت ناک سزائوں کا نشانہ بنایا۔
نیپرا بجلی کے حوالے سے ہمارا ’’مائی باپ‘‘ ہے۔اس کی مہربانی کہ دورِ حاضر کے ’’بنارسی ٹھگوں‘‘ کے ہتھکنڈوں سے ہمیں آگاہ کردیا۔ فقط ہماری آگاہی ہی لیکن نیپرا کا بنیادی فریضہ نہیں۔وہ ’’ریگولیٹر‘‘کہلاتا ہے۔ناظم کے پاس سزا اور جزا کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔سوال اٹھتا ہے کہ نیپرا نے ’’بنارسی ٹھگوں‘‘ کے طریقہ ہائے واردات دریافت کرلینے کے بعد کونسے ڈسکو کے کس کس افسر کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کے خلاف صارفین کو دھوکا دینے کی بنیاد پر سزائیں دلوانے کے عمل کا آغاز کیا۔
نیپرا کی رپورٹ پڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میرے علاقے کے تھانیدار نے ایک جامع رپورٹ کے ذریعے مجھے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ دھوکہ دہی کے عادی مجرمان ان دنوں ہمیں بے وقوف بنانے کے لئے کونسے ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں۔ہمیں ان سے محتاط رہنا ہوگا۔ ’’طریقہ ہائے واردات‘‘ان کا ارتکاب کرنے والوں کو جانے بغیر دریافت کئے ہی نہیں جاسکتے۔میں یہ بات تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ نیپرا کو علم نہیں کہ کب،کیسے اور کیوں ملک بھر میںپھیلے ڈسکوز نے باہم مل کر صارفین سے زیادہ سے زیاد ہ رقم اکٹھی کرنے کے لئے وہ تراکیب استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا جن کا ذکر میں نے کالم کے آغاز میں سادہ زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔میری خواہش تھی کہ اس کی تیارکردہ رپورٹ مجھے ’’وارداتیوں‘‘ کی نشاندہی ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف ہوئی کارروائی سے بھی آگاہ کرتی۔ایسا مگر ہوا نہیں۔
منگل کی صبح چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کیساتھ ڈسکوکے طریقہ ہائے واردات سے ہمیں آگاہ کردیا گیا۔اس دن شام ہی مگر خوش خبری یہ بھی سنادی گئی ہے کہ اس بار ہمیں جو بل آئیں گے ان میں خرچ ہوئے بجلی کے ایک یونٹ کی قیمت میں 3روپے سات پیسے کا اضافہ ہوگا۔ ہم بدنصیب اس اضافے کو بھی ہضم کرنے کو مجبور ہوںگے۔کامل بے بسی کی اس سے بڑی مثال ڈھونڈنا ممکن نہیں۔

ای پیپر دی نیشن