جسطرح ہمارے ملک میں عام انتخابات کے نتائج کے بعد اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اسی طرح پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندر حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات نے تنازع کو جنم دیا ہے اور مخالفین کی جانب سے پارٹی کے اندر جمہوری عمل پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ بلامقابلہ سلیکشن کا یہ رجحان، اگرچہ پاکستانی سیاست میں غیر معمولی نہیں، لیکن مخصوص حالات کی وجہ سے تنقید کا باعث بنا ہے۔ بلامقابلہ انٹرا پارٹی انتخابات میں پارٹی کارکنان کی گہماگہمی یا جلسے جلوس کی پاکستانی سیاسی منظرنامے میں مثال نہیں ملتی، تاہم جمہوری اصولوں کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے لئے سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آئے ہیں کہ اس میں زیادہ تر عدم شفافیت کا رجحان دیکھا جاتا ہے۔بلکہ مورثی سیاست کو فروغ ملتا ہے مگر پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات جیسے بھی ہوں وہاں ایسا نہیں ہوا اسکی وجوہات ہیں انکے دو صاحبزادے انکی سابقہ بیگم جمائمہ گولڈ سمتھ کی ممتا میں پرورش پارہے ہیں ۔وہ سیاست سے دور ہیں ۔نکے اپنے گھر میں نند بھاوج (بشرہ بی بی اور علیمہ خانم ) کا جھگڑا شروع ہوچکا ہے دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشی کررہے ہیں مگر اس صورتحال میں اپنی روٹی روزی کیلئے لطیف کھوسہ جو پی پی پی سے جمپ لگا کر تحریک انصاف کو انصاف دلانے کیلئے میدان میں آئے ہیں وہ سابقہ چئیرمین پی ٹی آئی کی بیگم محترمہ بشرہ بی بی کے وکیل ہیں ، لطیف کھوسو کیا ؟؟ جب بھی ہمارے ملک میں سیاسی افراتفری ہوتی ( جو اکثر ہوتی رہتی ہے ) تو سیاسی جماعتوں یا سیاسی لیڈران کے لئے مقدمات لڑنے والے وکلاء کی چاندی ہوجاتی ہے وہ یہ مقدمات مفت نہیں لڑتے ، اگر انہیں سیاسی جماعت جو مقدمات پر کروڑوں خرچ کرتی ہے انہیں مقدمہ نہ دے یا اپنی قانونی ٹیم میں شامل نہ کرے تو وہ اس جماعت کے خلاف ہوجاتے ہیں یہ زندہ مثال اعتزاز احسن کی ہے ، وکیل بھی کمال کی چیز ہوتے ہیں ماضی میں ایک مقدمہ غیر قانونی طور پر کرنسی دوبئی لیجانے آیا تھا ایک ماڈل ایان علی گرفتار ہوئی تھیں، جنہیں مبینہ طور آصف علی ذرداری سے منسوب کیا جارہا تھا۔ ایا ن علی کے وکیل بھی لطیف کھوسہ تھے ، ایک اخباری نمائیندہ کے سوال پر انہوں نے کہاتھا ’’ایان علی مسجد کا چندہ لے جارہی تھیں ‘‘ اب لطیف کھوسہ نند بھاوج کی باتیں ایک دوسرے کو پہنچا رہے ہیں۔ بہرحال بات شروع کی تھی پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی کے انتخابات کی جس میں مقید چئیرمین کی منظوری سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنماء اور بیرسٹر گوہر علی خان کو پی ٹی آئی کا چئیرمین مقرر کردیا گیا جو بقول پی ٹی آئی منتخب کئے گئے ہیں ددیگر جماعتوں کی اس پر بیان بازی سمجھ سے بالا تر ہے یہ پی ٹی آئی کا معاملہ ہے۔دیگر جماعتوںکو اپنی جماعت کی فکر ہونا چاہئے ۔ ہمارے سیاست دان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ملکی سیکورٹی ، معیشت پر توجہ دیں انکے بیانات ، اقدامات اور سیاست کو اگر یوںکہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایک عمر کے بعد وہ کچھ عجیب عجیب باتیںکرنے لگتے ہیں چونکہ انہیں ملک کے اصل مسائل سے آگا ہ ہی نہیں وہ اسطرح کی باتیںکرتے ہیں کہ عوام سوچ بچار میں پڑ جائین ، سیاست سے نالاں ہوجائیںبزرگ سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی جنہوںنے پی ٹی آئی کے صدر کے طور پر بہت ابتداء ہی میں پی ٹی آئی کو اقتدار کیسے ملا اسکا ’’بھانڈہ ‘‘ پھوڑ دیا تھاکہ کس طرح اسوقت کے چیف جسٹس ، افواج پاکستان کے کچھ افسران بقول عمران خان اس اقتدار کا ’’بندوبست ‘‘کیا تھا جو بعد میں سب کو حقیقی طور پر معلوم بھی ہوگیا ۔اب محترم مخدوم جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کے حامی ہیں اسکے رہنماء ہیںان کا ایک انٹرویونجی ٹی وی پر دیکھا موصوف فرماتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کیلئے ’’پاپولر ‘‘ووٹ کا ہونا ضروری ہے ، بقول ان کے اس وقت پاکستان کا ستر فیصد پاپولر ووٹ پی ٹی آئی کا ہے ۔ خاتون اینکر بھی ان کے جوابات پر حیران نظر آرہی تھیں۔ وہ سوالات پوچھ رہی تھیں اس بات پرکہ پاپولر ووٹ پی ٹی آئی کا ہے مگر انہیں حکومت نہیں ملے گی ، نیز انہیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ میاں نواز شریف کے وعدے کے بعد بھی نہیں ملے گا ،ان سے اسکی تفصیلات جاننا چاہتی تھیں مگر ایسا لگا کہ مخدوم جاوید ہاشمی خود بھی یہ کہہ کر ’’پھنس گئے ‘‘۔ اگر پاپولر ووٹ پی ٹی آئی کو ملے گا تو پاپولر ووٹ وہی ہے جس نے 9 مئی کو پاکستانی کی بنیادیںہلا کر رکھ دی تھیں۔ تو اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہو ،اس مجوزہ انتخاب کیلئے فروری میں ( فی الحال)تباہ حال معیشت سے 18 ارب روپیہ خرچ کیا جائیگا ۔ اگر پاپولر ووٹ وہی ہے توپھر یہ 18 ارب تو ’’وڑ گیا ‘ ‘ تحریک انصاف کے سابقہ چیئرمین نے جو جیل میں بقول انکے عبادت کی زندگی گزار رہے ہیں ، عبادت کے دوران کوشش ہوتی ہے انسان سچ بولے تاکہ عبادت قبول ہو انہوںنے پھر ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے اورایک عجیب غیر منطقی بیان مارکیٹ میں پھینک دیا ہے کہ 9مئی کا واقعہ نواز شریف کے لندن پلان کا حصہ تھا ، اور انہوںنے یہ سب کچھ کرایا تھا۔وہ اس سے قبل عدالت کو بتا چکے ہیں کہ9 مئی میںنے نہیںبلکہ میرے کارکنوںنے کیا میںتو گرفتار تھا ۔مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ اسے دس ہزار درخواستیں امیدوارںکی وصول ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف وہ ایم کیو ایم ( ہمیشہ کی طرح کمزور اتحادی ) اور مولانہ فضل الرحمان سے انتخابی اتحاد بھی کربیٹھے ہیں ۔ بلوچستان کے حالیہ دورے کے دوران انہوںنے30 electablesکو بھی اپنی جماعت میں قبول کرلیا ہے ، اور ماشاء اللہ یہ electable ہر انتخاب میں اپنی جماعت تبدیل کرنے میںمشہور ہیں۔ تو یہ ہوگا انتخاب ۔