برطانیہ ‘ انگلستان اور ولایت

بنیادی طور پر برطانیہ جسے Kingdom United بھی کہا جاتا ہے‘ چار صوبوں سکاٹ لینڈ‘ آئرلینڈ‘ ویلز اور انگلستان کا مجموعہ ہے۔ انگلستان کی ان صوبوں میں اہمیت اس لئے بھی زیادہ محسوس کی جاتی ہے کہ لندن برطانیہ کا دارالحکومت ہی نہیں‘ ہردلعزیز ایسا تاریخی شہر ہے جس نے تین سو برس قبل ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کو جنم دیا۔ 
اس حقیقت سے بھی بہت کم لوگ آشنا ہیں کہ نویں صدی میں لندن برطانیہ کا دارالخلافہ نہیں بلکہ ’’ونچسٹر‘‘ دارالحکومت تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ عظمیٰ پر بادشاہ حکمران تھا اور پھر ایک وقت آیا جب لندن کو دارالخلافہ بنا دیا گیا۔ اسے آپ میری دیسی اختراع کہہ لیں یاپرانے وقتوں کے گوروں کی قومی سوچ کہ ’’لفظ ’’ولایت‘‘ کو برصغیر ہند میں انہوں نے اس انداز سے متعارف کروایا کہ انکے زیراثر ہر کام کرنیوالے کی زبان پر ولایت اور ’’صاب‘‘ کا لفظ عام ہو گیا جو ابھی تک عام ہے۔’’لفظ ولایت‘‘ آٹھویں جماعت میں میں نے چونکہ اپنے انگریزی کے اساتذہ آنجہانی لال موتی لال اورآنجہانی آر این مل سے سنا اور سمجھا تھا اس لئے میں یہ لفظ انگلستان آنے کے بعد بھی تاہنوز استعمال کررہا ہوں۔ حال ہی میں شائع ہونیوالی اپنی کتاب آپ کا نام اور آپ تک پہنچنے والے کالم کا نام بھی میں نے ’’ولایت نامہ‘‘ ہی رکھا ہے۔ اب آپ یقیناً یہ سوچیں گے کہ برطانیہ کے مذکورہ چار صوبوں اور بالخصوص انگلستان کی یہ تمہید باندھنے کی مجھے آج ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ’’ولایت‘‘ آنے کی خواہش اور پھر یہاں سے کبھی بھی واپس اپنے ملکوں کو نہ جانے کی سوچ سے جنت میںقیام کا ہی گمان گزرتا ہے۔ یہاں پہنچنے والے بیشتر نوجوان اور طلباء سمیت کسی نہ کسی طریقے سے ولایت کے ان چار صوبوں میں پناہ گزین مراعات حاصل کرنیوالوں کی بنیادی خواہش کی اگر بات کریں تو انکے خوبصورت خوابوں میں برطانوی مالی الائونسز کا حصول اور لندن کی کشادہ سڑکوں پر لگے درختوں سے ’’پونڈوں‘‘ کو اتار کر سلیقے سے اپنی جیبوں میں رکھنا ہی وہ بنیادی تخیل ہے جو یہاں پہنچ کر پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ میں نے یہاں اپنے طویل عرصہ قیام اور ایک انتہائی حساس ادارے سے وابستگی کی بناء پر چونکہ :
برسات میں گھر جلتے دیکھے ہیں اس لئے بخوبی جانتا ہوں کہ ولایت آنیوالوں کی حسین سوچوں کے پس پردہ کونسے ایسے عوامل ہیں جو انہیں ولایت آنے پر مجبور کرتے ہیں۔ صد افسوس! کہ ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے غیرقانونی یا بذریعہ فراڈ یہاں آنیوالے بیشتر افراد کی سوچ ہفتہ وار مفت بے روزگاری الائونس کا حصول‘ مفت میڈیکل اور چوری چھپے منشیات کے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانا شامل ہے۔ چونکہ دنیا کی مضبوط ترین فلاحی مملکت ہے اس لئے بے گھر اور پلوں کے نیچے ٹھنڈی راتیں بسر کرنے والے انسان تو دور کی بات، کسی پالتو بلی‘ کتے یا جنگلی بلیوں اورلومڑیوں کو مناسب خوراک اور انکے رہنے والے علاقوں میں سہولتیں دستیاب نہ ہونے بھی پر قانون اور متعلقہ ادارے فوراً حرکت میں آجاتے ہیں۔ یہی حال پناہ گزینوں کا ہے جنہیں خوراک‘ و رہائش اور انکی میڈیکل سہولتوں کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ مگر افسوس! انسانی سمگلروں کے پھیلتے کاروبار نے حکومت کو اب متعدد مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ پناہ گزینوں کی بہبود کیلئے حکومت برطانیہ کے اٹھائے اقدامات بلاشبہ قابل رشک ہیں مگر Brexit کے فوراً بعد پیدا ہونیوالی معاشی صورتحال نے برطانوی معیشت کو کافی حد تک عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔ ان حالات کے پیش نظر حکومت جو پالیسی مرتب کرنے کی خواہاں تھی‘ اگلے روز وہ بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ 
معاملہ یہ تھا کہ برطانیہ آنیوالے پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر حکومت نے مشرق وسطیٰ افریقہ میں واقع ملک Rwanda کے ساتھ 12 کروڑ پونڈ مالیت کا ایک عارضی معاہدہ کیا جس کا بنیادی مقصد پناہ گزینوں کی درخواستوں پر برطانوی حکومت کو کارروائی کرنے کیلئے وقت کا تعین کرنا تھا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ انسانی سمگلروں کے بڑھتے کاروبار کے خاتمے اور انگلش چینل کے راستے برطانیہ آنیوالوں کو روکنے کیلئے فوری طور پر یہ اقدام اٹھایا جائے مگر برطانوی سپریم کورٹ کے دیئے اس حالیہ فیصلے میں جس میں حکومت پر واضح کیا گیا کہ برطانیہ آئے پناہ گزینوں کو ’’رونڈا ‘‘بھجوانا درست اقدام نہیں۔ رشی سنک حکومت کو مزید امیگریشن مسائل بڑھنے کے ساتھ شدید معاشی جھٹکا لگا ہے۔ 
ادھر عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے ڈپٹی لیڈر نے حکومت کو برطانوی پناہ گزینوں کو رونڈا بھجوانے کے حوالے سے ایک اور حل تلاش کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ مذکورہ پناہ گزینوں کی درخواستوں پر مکمل کارروائی کے خاتمہ تک انہیں سکاٹ لینڈ کے دور دراز خوبصورت جزیروں میں پناہ دے دی جائے۔ موسم گو وہاں سرد ہوگا مگر پناہ گزین ان جزیروں سے یقیناً لطف اندوز ہونگے مگر حتمی فیصلہ حکومت کو کرنا ہوگا۔ برطانوی امیگریشن پالیسی میں حالات کے تحت وقتاً فوقتاً تبدیلی چونکہ جاری رہتی ہے اس لئے پناہ گزینوں کے قواعد و ضوابط میں بھی اس انداز سے ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ Care Visa کے نام پر آجکل جہاں قانونی طور پر لوگ برطانیہ آرہے ہیں‘ وہیں فراڈ کے ذریعے غیرقانونی طور پر ’’ولایت‘‘ آنے کے رجحان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض ممالک بشمول پاکستان سے کیئر ویزہ سے آنیوالوں سے لاکھوں روپے کے عوض ایجنٹ اور ملازمتیں دلانے والی کمپنیوں کے نمائندے اس قانونی ویزے کے ذریعے فراڈ سے اپنے کاروبار چلا رہے ہیں جبکہ طے شدہ معاہدے کے باوجود برطانیہ پہنچنے والے افراد کو وہ معاوضہ اور نہ ہی انہیں وعدہ کے مطابق ملازمت دی جا رہی ہے۔ بیشتر کمپنیاں مبینہ طور پر اپنے آپ کو Bankcorrupt ڈکلیئر کرنے کے بعد بھاری رقوم کے عوض آئے افراد سے اپنا تعلق ختم کر دیتی ہیں اور یوں کچھ عرصہ بعد ہوم آفس کی تحقیق پر ویزہ کا سپانسر نہ ہونے کی بناء پر لاکھوں روپے دیکر ولایت آنیوالوں کو واپس ملک جانے کے احکامات پر یقینی عمل پیرا کرانا حکومت کی مجبوری بن جاتی ہے۔ ایسے حالات سے بہتر ہے کہ ولایت کے شوق کو وطن عزیز پر نچھاور کردیا جائے کہ سکون سب سے بڑی نعمت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن