فلسطین کا غم

ایک مہمان خاتون اپنی بچی کے ساتھ میرے گھر آئی۔ وہ خاتون گھریلو حالات سے پریشان تھی اور کوئی مشورہ میرے میاں سے لینے کیلئے آئی تھی۔
اس وقت فلسطین میں دہشت گردی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے سارے ملک میں معاشی اور معاشرتی طور پر لوگوں کو بہت سی قربانیاں دینا پڑ رہی ہیں۔ زیادہ ترچھوٹے بچوں کو مرتے ہوئے دکھایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھ کربرے حالات کی وجہ سے بچے بہت متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے معصوم ذہن بہت جلد ان باتوں کا اثرقبول کرتے ہیں اور پھر ننھی عمر میں وہ احساسات سے عاری ہونے لگتے ہیں۔ فلسطین میں آئے روز قتل و غارت کی وارداتیں معمول پر ہیں۔ تاہم ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جو کافی ملکوں سے ایڈ جا رہی ہے بقول پریشان حال فلسطین کے لوگوں کے، وہ ان تک نہیں پہنچ رہی۔۔۔ادویات،خوراک کا سامان اور دیگر اشیاء۔روزانہ کے حساب سے ہزاروں لوگ مررہے ہیں اور ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آرہی ہیں۔اب ان کو مرتے ہوئے چھوٹے بچے بھی دیکھ رہے ہیں۔
مہمان خاتون کے ساتھ ننھی سی بچی آئی تھی جس کی عمر تقریباََ چار سال تھی۔ ہمارے گھر آئیں تو اس وقت ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھی جا رہی تھیں۔
وہ ماں سے پوچھ رہی تھی۔
’’کتنے مرے ہیں‘‘؟
’’بیٹا چپ کر جائو‘‘وہ اسے بار بار چپ کروا رہی تھی تو مجھ سے نہ رہا گیا اور پوچھ لیا۔
’’یہ کیا پوچھنا چاہ رہی ہے۔۔۔۔۔؟‘‘
’’بھابی کیا بتائوں فلسطین کے حالات سے تو آپ باخبر ہی ہیں۔ روزانہ خبروں میں یہی بتایا جاتا ہے کہ فلاں جگہ اتنے مارے گئے۔ اب تو وہاں ہر جگہ پر دھماکے ہو رہے ہیں۔ اس کے ننھے سے ذہن میں یہی بات سما گئی ہے کہ خبروں میں صرف مرنے والوں کے ہی بارے میں بتایا جاتا ہے‘‘۔ اس لڑکی کا تو اب یہ عالم ہو چکا ہے کہ کہیں پٹاخہ بھی چلے تو کہتی ہے۔
’’ماما گولی چلی ہے‘ کوئی مر گیا ہے‘‘۔
میں نے حیرانگی سے اس بچی کی جانب دیکھا جس کی عمر واقعی چار سال کی تھی اور وہ نڈر ہو چکی تھی جیسے گولی چلنا اور روزانہ لوگوں کا مرنا معمول بن چکا ہے۔ وہ تو ایسے پوچھ رہی تھی جیسے کہیں کرکٹ کا میچ ہو رہا ہو تو بچہ پوچھتا ہے کہ اب کتنے سکو ر ہوئے ہیں‘کون آئوٹ ہوا ہے؟وغیرہ وغیرہ میں نے بچی کی جانب دیکھتے ہوئے اس کی ماں سے پوچھا۔
’’جب کہیں گولی چلتی ہے تو کیا یہ بچی ڈرتی ہے‘‘۔
’’توبہ کریں۔۔۔۔۔یہ تو عادی ہو چکی ہے۔ میں کراچی سے آئی ہوں وہاں کے حالات بھی کوئی صحیح نہیں ہیں۔  ہم لوگ تو خوفزدہ ہو جاتے ہیں مگر یہ نہیں ہوتی‘لیکن اس بچی کا بھی قصور نہیں ہے ۔ایسے ماحول میں اس نے آنکھ کھولی ہے جہاں فساد ہی فساد ہے۔ صبح کے وقت جب میرا شوہر دفتر جاتا ہے اور بچی سکول میں تو ہم آپس میں خدا حافظ کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ خیریت سے واپس لوٹ آئیں۔ زندگی کا کیا بھروسہ ہے بس اللہ کو نگہبان بنا کر جی رہے ہیں‘‘۔
’’آپ کراچی چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟‘‘
’’کیسے چھوڑیں۔۔۔روزگار کے چکر میں اور اپنا مکان کسی کے حوالے کریں۔۔۔۔۔ دل نہیں مانتا۔ لاہور یا اسلام آباد میں کرائے کے مکان میں آبھی جائیں تو یہاں نوکری تلاش کرنا مشکل ہے اور پھر اپنا مکان بھی گنوا دیں اور دوسرے شہر کونسے محفوظ ہیں۔ اگر قسمت میں تکلیف لکھی ہے تو ہر جگہ تکلیف ہی ملے گی۔۔۔پھر گھر اور نوکری کیوں چھوڑیں ہماری طرح باقی کے بسنے والوں کی یہی رائے ہے ۔ کسی کا بزنس ہے کسی کی نوکری‘‘۔ اس خاتون کی باتوں سے سچائی ٹپک رہی تھی۔ کچھ دیر توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوئی۔
’’اب پنجاب کو ہی دیکھ لیں یہاں پر بھی اسی طرح کے حالات پیدا ہو رہے ہیں کوئی بھی ایسا رہنما نہیں آیا جو ان کو سدھار سکے۔ زبانی کلامی باتیں تو بہت ہوتی ہیں مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ۔ چاروں طرف آگ سلگ رہی ہے۔ اس کو بجھانے والا کوئی بھی نہیں‘‘۔
وہ خاتون ٹھیک ہی کہہ رہی تھی کہ کراچی کے حالات دن بدن ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں تو پولیس اور رینجرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن دہشتگردی کے واقعات میں کوئی نمایاں کمی واقع نہیں ہوئی۔ بعض اوقات تو یوں لگتا ہے جیسے کراچی میں سرے سے ہی کوئی حکومت نہیں ہے۔ وہ کونسے گروہ ہیں جو امن و امان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیا ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہے؟
حکومتی حلقوں کا تجزیہ کچھ ہے اور کراچی والوں کی صدا کچھ اور۔۔۔۔کوئی سن رہا ہے یا نہیں۔۔۔۔بے حسی کا عالم ہے کہ پانچ لوگ مرنے پر امن کا گمان ہوتا ہے۔ جیسے ان پانچ جانوں کی قیمت کچھ بھی نہیں۔ ابھی سیاسی محاذ پر بہت کچھ کرنا ہے۔ جس کے آثار ابھی تک نظر نہیں آرہے ہیں۔ چلیں کراچی کو تو چھوڑیں فلسطین میں دیکھیں جو کچھ ہو رہا ہے۔ خون کے آنسوٹپکتے ہیں۔۔۔۔۔ـــ دیکھتے ہیں بے گناہ لوگوں کا خون کیا رنگ لاتا ہے۔
دہشتگردی رکی نہیں بلکہ یہ سفر کر رہی ہے۔ اب اپنا غم چھوٹا پڑتا جا رہا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ فلسطین والوں کو کوئی غیبی مدد دے تاکہ وہاں امن و امان ہو جائے۔(آمین)

ای پیپر دی نیشن