ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو 2002ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی جگہ جن مقاصد کے لیے تشکیل دیا گیا تھا ان میں سے ایک اہم مقصد یہ تھا کہ اس ادارے کے ذریعے ملک میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں یو جی سی کے ڈھانچے اور کام کرنے کے طریقوں کی وجہ سے جو رکاوٹیں پیدا ہورہی تھیں انھیں دور کیا جائے۔ ڈاکٹر عطا الرحمن کو انھی مقاصد کو پورا کرنے کی ذمہ داری سونپتے ہوئے اس نئے ادارے کی سربراہی دی گئی اور وہ بڑے فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ان کے دور میں ایچ ای سی نے ایسے اقدامات کیے جن سے ملک میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حامل افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہاں یہ سوالات اہمیت کے حامل ہیں کہ مقدار کے ساتھ معیار میں بھی اضافہ ہوا یا نہیں؟ اور اگر معیار میں کوئی بہتری نہیں آئی تو پھر محض مقدار میں اضافے سے کون سے مقاصد حاصل کیے گئے؟ کیا محض ڈگری یافتہ افراد کی تعداد میں اضافہ کر کے ہم اقوامِ عالم میں سر اونچا کر کے کھڑے ہوسکتے ہیں؟
یہ سوالات جتنے اہم ہیں ان کے جوابات کے سلسلے میں اتنی ہی سردمہری پائی جاتی ہے کیونکہ ایچ ای سی کے قیام کا مقصد ایسے نکات پر غور کرنا تھا ہی نہیں اور نہ ہی اس ادارے کے بانی سربراہ ان سوالات کو درخورِ اعتنا سمجھتے ہیں۔ اسی لیے وہ اب تک بس تعداد ہی پر زور دیتے ہیں اور اسی کو اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مقامی طور پر پانچ ہزار پی ایچ ڈی افراد پیدا کرنے کا منصوبہ (Indigenous 5000 PhD Fellowship Program) بھی انھی کے ذہنِ رسا کی پیداوار تھا، اور اسی منصوبے نے سب سے زیادہ مسائل پیدا کیے کیونکہ اس کے تحت دھڑا دھڑ ڈگریاں دینے بلکہ بانٹنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا اور اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ جو افراد یہ ڈگریاں حاصل کررہے ہیں وہ تحقیقی مقالہ جات کے نام پر جو کچھ جامعات میں جمع کرا رہے ہیں وہ بین الاقوامی یا عالمی معیارات کے مطابق اعلیٰ ترین درجے کی سند دیے جانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔ نتیجہ اس سب کا یہ نکلا کہ نہایت ردی قسم کے مقالہ جات کی بنیاد پر سینکڑوں لوگوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیں اور پھر سفارش یا کسی اور ذریعے کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے وابستہ ہوگئے۔ ایسے لوگ تدریس و تحقیق کے نام پر کیا کرتے ہوں گے یہ ایک کھلا راز ہے۔
یہ تو ایچ ای سی کے صرف ایک منصوبے کی مثال ہے لیکن اس کے دیگر منصوبوں کا حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ایچ ای سی کے قیام کو دو دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکنے کے بعد ملک بھر میں جامعات کی بہار آچکی ہے اور ڈگری یافتہ افراد بھی قابلِ ذکر تعداد میں پیدا ہوگئے ہیں لیکن معیارِ تعلیم بہتر ہونے کی بجائے خراب تر ہوا ہے تو مذکورہ ادارے کے ذریعے اربوں کھربوں روپے خرچ کر کے مختلف منصوبے ترتیب دینے والے افلاطونوں سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جن مقاصد کے تحت یہ منصوبے شروع کیے گئے تھے آخر وہ پورے کیوں نہیں ہوسکے؟ کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں افراطِ اسناد تعلیم کی اہمیت کو نگلتی جارہی ہے اور بس ایک دوڑ لگی ہوئی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ڈگری یافتہ افراد پیدا کردیے جائیں؟ ان ڈگری حاصل کرنے والے افراد میں سے جو ذرا کسی کام کے قابل ہوتے ہیں وہ موقع ملتے ہی ملک سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ نمک کی کان میں رہ کر نمک نہیں بننا چاہتے اور نہ ہی مسائل کی دلدل میں پھنسے رہنا چاہتے ہیں۔
خیر، بات ہورہی تھی ایچ ای سی اور اس کے کاموں کی۔ چند سال پہلے اس ادارے نے بی اے اور ایم اے کو ختم کر کے بیچلر آف سٹڈیز یا بی ایس کا نظام متعارف کرا دیا جس کے تحت طلبہ سالانہ بنیادوں پر نہیں بلکہ سمسٹر کی بنیاد پر امتحان دیتے ہیں۔ اگر اس نظام اور معروضی تقاضوں پر پوری طرح غور و خوض کر کے کچھ ٹھوس اقدامات کے ذریعے اس نظام کو نافذ کیا جاتا تو ممکن ہے بہتر نتائج برآمد ہوتے لیکن کاتا اور لے دوڑی کے مصداق اِدھر کسی دانیالِ زمانہ کے ذہن میں خیال آیا، اُدھر نشستند و گرفتند و برخاستند کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے کچھ اجلاس منعقد کیے گئے اور پھر اعلان کردیا گیا کہ ملکِ خداداد میں اعلیٰ تعلیم کا نیا نظام نافذ کیا جارہا ہے۔ نظام تو نافذ کردیا گیا لیکن اس کا حال بھی پانچ ہزار پی ایچ ڈی ڈگریاں بانٹنے والے منصوبے جیسا ہی ہوا۔ اب طلبہ دو مہینے پڑھتے ہیں پھر امتحان دیتے ہیں، پھر دو مہینے پڑھتے ہیں اور امتحان دیتے ہیں، اس سب کے دوران وہ سیکھتے کیا ہیں اور کسی قابل ہو پاتے ہیں یا نہیں، اس پر غور نہ ایچ ای سی والوں نے کیا اور نہ ہی کسی اور نے!
ایک سلسلہ ایچ ای سی نے ڈگریوں کے تصدیق کے نام سے بھی شروع کررکھا ہے جس کا مقصد بدیہی طور پر تو یہی ہے کہ جعلی ڈگریوں کا کاروبار بند کرایا جاسکے لیکن اس سلسلے کو جس طرح چلایا جارہا ہے اس سے اصلی ڈگری والے بھی پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ایچ ای سی نے اس نظام کو بہتر بنانے کی کوشش تو کی ہے لیکن ادارے کے افسران و اہلکاران شاید حقیقی مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہیں اس لیے بہتری کی کوششیں کم بار آور ثابت ہوئی ہیں۔ مزید یہ کہ ایچ ای سی کی ویب سائٹ میں کئی تکنیکی خامیاں ہیں جنھیں سالہا سال گزرنے کے باوجود دور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ حد یہ ہے کہ شکایات کے ازالے کے لیے ویب سائٹ کا جو حصہ (onlinehelp.hec.gov.pk) مختص کیا گیا ہے اس کے بارے میں بھی بہت سی شکایات ہیں جن پر ادارے کے افسران و اہلکاران کوئی توجہ ہی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اس ویب سائٹ پر ایک شکایت (نمبر 2091780) 11 اگست 2023ء کو درج کرائی گئی تھی اور تقریباً چار مہینے گزرنے کے باوجود وہ مسئلہ جوں کا توں ہے جسے حل کرانے کے لیے شکایت درج کرائی گئی تھی۔
ایچ ای سی اگر واقعی لوگوں کے لیے سہولت پیدا کرنا چاہے تو ڈگریوں کی تصدیق کے لیے ملک بھر کی جامعات کے ساتھ مل کر ایک مربوط نظام ترتیب دیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے ہر جامعہ کی ہر ڈگری اور طالب علم کا ریکارڈ ایچ ای سی کے پاس کمپیوٹر میں محفوظ ہوتا جائے اور تصدیق کی فیس بھی یونیورسٹی کی پہلی یا آخری فیس کے ساتھ ہی جمع ہو جائے۔ جب ڈگری مکمل ہو تو یونیورسٹی اس نظام میں ریکارڈ کو اپڈیٹ کردے اور پھر کوئی بھی اگر اس ڈگری کے اصلی ہونے کے بارے میں تصدیق کرنا چاہے تو وہ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر جا کر مطلوبہ معلومات درج کر کے یہ دیکھ لے کہ ڈگری ایچ ای سی سے تصدیق شدہ ہے یا نہیں۔ اس نظام کے ذریعے ان تمام غیر ضروری الجھیڑوں سے جان چھڑائی جاسکتی ہے جن کا اس وقت لوگوں کو سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ مزید یہ کہ وہ انتظار کی زحمت اور اس بھاگ دوڑ سے بھی بچ جائیں گے جو انھیں ڈگریوں کی تصدیق کے سلسلے میں کرنا پڑتی ہے۔
٭…٭…٭