اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تخفیف اسلحہ اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کو فروغ دینے کے لئے پاکستان کی طرف سے پیش کی گئی چار قراردادوں کی منظوری دے دی۔ یہ قراردادیں مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان کے واضح عزم کی عکاسی کرتی ہیں، ان قراردادوں کے مسودوں کی 193 رکنی جنرل اسمبلی کی فرنٹ کمیٹی برائے تخفیف اسلحہ و بین الاقوامی سلامتی کی طرف سے بھاری اکثریت کے ساتھ منظوری دی گئی۔ ان میں سے تین قراردادیں علاقائی تخفیف اسلحہ، علاقائی اور ذیلی علاقائی سطحوں پر روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ علاقائی اور ذیلی علاقائی تناظر میں اعتماد سازی کے اقدامات سے متعلق ہیں۔
چوتھی قرارداد میں جوہری ہتھیار نہ رکھنے والی ریاستوں کے لئے بین الاقوامی سلامتی کی یقین دہانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ علاقائی اور ذیلی تناظر میں علاقائی تخفیف اسلحہ اور اعتماد سازی کے اقدامات کے عنوان سے قراردادوں کی جنرل اسمبلی کے بغیر ووٹنگ کی متفقہ منظوری دی گئی جبکہ علاقائی اور ذیلی سطحوں پر روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق قرارداد کی حمایت میں 186 رکن ممالک نے ووٹ دئیے اور صرف ایک ملک بھارت نے قرارداد کی حمایت سے انکار کیا۔ اسی طرح جوہری ہتھیار نہ رکھنے والی ریاستوں کے تحفظ سے متعلق قرارداد کے حق میں 123 ممالک نے ووٹ دیا اور 62 ممالک بشمول بھارت نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اس موقع پر مختلف سفارتکاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کی پیش کردہ چاروں قراردادیں ہتھیاروں کے کنٹرول، تخفیف اسلحہ اور اعتماد سازی کے لئے علاقائی اور عالمی نقطعۂٔ نظر کی اہمیت اور تکمیل کو تسلیم کرتی ہیں۔ قراردادوں میں علاقائی تناظر میں ضرورت سے زیادہ روایتی فوجی خطرے کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے بالخصوص جنوبی ایشیاء میں ایسے خطرات سے نمٹنے کے لئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں اور علاقائی و ذیلی علاقائی سطح پر اعتماد سازی کے اقدامات کو فروغ دینے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ نمائندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کا قیام ہی اس بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا کہ اس سے قبل نمائندہ عالمی ادارہ لیگ آف دی نیشنز اپنی رکن ریاستوں میں ایک دوسرے کے خلاف طاقت کے استعمال اور جنگ و جدل روکنے میں قطعی ناکام رہا تھا اور انسانی معاشرے میں ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ کا تصور غالب آنے لگا تھا۔ لیگ آف دی نیشنز کی یہی بے عملی دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوئی جس میں امریکہ نے پہلی بار جاپان کے خلاف ایٹم بم کا استعمال کیا اور اس کے بالخصوص دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو انسانی آبادی سمیت عملاً برباد کر کے رکھ دیا جبکہ اس کے مضر اثرات خطے کے دوسرے ممالک تک بھی جا پہنچے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ تشکیل پائی تو اس کا باقاعدہ انسانی حقوق کا چارٹر مرتب کر کے تمام ریاستوں کو پابند کیا گیا کہ وہ باہمی تنازعات کے حل کے لئے ایک دوسرے کے خلاف طاقت کا ہرگز استعمال نہیں کریں گے اور جنگ و جدل سے گریز کیا جائے گا جبکہ علاقائی، ریاستی اور عالمی تنازعہ صرف اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر طے کئے جائیں گے۔
یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ لیگ آف دی نیشنز کے انجام سے سبق حاصل کرنے کے بجائے چند بڑی طاقتوں نے اقوام متحدہ پر بھی غلبہ حاصل کر کے ’’جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس‘‘ کے فلسفہ کو ہی تھام لیا۔ امریکہ پہلے ہی خود کو ایٹمی بنا چکا تھا جس کے بعد برطانیہ ، جرمنی، فرانس نے بھی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر لی اور پھر خطہ میں اور عالمی سطح پر ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اسلحہ ساز ممالک نے اسلحے کی فروخت کے لئے اپنی منڈیاں بھی قائم کر لیں چنانچہ مختلف ممالک کو ایک دوسرے سے لڑانا ، انہیں اپنا اسلحہ فروخت کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا۔ ان ایٹمی ممالک نے ایٹمی کلب قائم کر کے دوسرے ممالک کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول شجر ممنوعہ بنا دیا۔ انہیں ایٹمی عدم پھیلائو اور تخفیف اسلحہ کے معاہدوں کا پابند کیا جانے لگا اور خود پر ان معاہدوں کو لاگو کرنا ضروری نہ سمجھا۔
آج دنیا اور مختلف خطوں میں امن و سلامتی کو جو خطرات لاحق ہیں وہ ایٹمی طاقت کے حامل ان چند ممالک بالخصوص امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم ہی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت اور مسلم دنیا کو زیر کرنے کے لئے پہلے اپنے پوڈل اسرائیل کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کیا اور پھر اس نے سوویت یونین کے سرد جنگ میں حصے بخرے کرنے کے بعد اس خطے میں بھارت کے سر پر ہاتھ رکھ لیا جو نہ صرف شروع دن سے پاکستان کی سلامتی کے خلاف خدا واسطے کا بیر رکھتا ہے بلکہ خطے میں اس کے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس نے 1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد 1974ء میں خود کو ایٹمی قوت بھی بنا لیا تھا اور پاکستان کے خلاف وہ ہمہ وقت سازشوں میں مصروف رہتا تھا چنانچہ پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے لئے مجبوراً ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنا پڑی۔ جب پاکستان نے -28 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کئے تو امریکہ نے اپنی دہری پالیسیوں کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت پر تو اپنی عنایات کی بوچھاڑ کر دی مگر پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرا دیں۔ اسی طرح امریکہ نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی پاداش میں ایران پر بھی اقتصادی پابندیاں لگوائیں اور شمالی کوریا کے بھی درپے ہو گیا جبکہ ایٹمی پھیلائو میں اس کے اپنے عزائم کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں فساد کی ساری جڑ تو امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی اسرائیل اور بھارت ہی ہیں جنہوں نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو عملاً دائو پر لگا رکھا ہے۔ آج اسرائیل امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی شہ پر اور ان کی سرپرستی میں ہی غزہ میں فلسطینیوں کو بے دریغ خون میں نہلا رہا ہے جن کا پوری دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں۔ اسی طرح بھارت امریکی سرپرستی حاصل ہونے کے بعد پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے مزید شیر ہو گیا ہے جس نے پاکستان کو کمزور کرنے کی نیت سے ہی 1947ء میں قیام پاکستان کے دو ماہ بعد ہی خود مختار ریاست کشمیر کے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا تھا جبکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھانے کی پاداش میں بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں، اسے دولخت کیااور پھر باقیمانہ پاکستان کی سلامتی کے درپے ہو گیا۔ اس کا یہی سازشی منصوبہ اس وقت بھی روبہ عمل ہے جس نے چار سال قبل پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ بھارت میں ضم کر لیا اور کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے دس لاکھ بھارتی فوج کے ذریعے انہیں عملاً گھروں میں محصور کر کے ان کے ہر قسم کے بنیادی انسانی حقوق غصب کر لئے۔ ان بھارتی عزائم کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی بے بس نظر آئی جبکہ امریکی کانگرس بھی واشنگٹن انتظامیہ کو بھارت کی سرپرستی ترک کرنے پر قائل کرنے میں ناکام ہو گئی۔ چنانچہ کشمیری عوام آج بھی اسی طرح بھارتی مظالم برداشت کرتے ہوئے اپنی آزادی کے لئے جانیں تک نچھاور کرنے کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی خاطر تخفیف اسلحہ کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چار قراردادیں پیش کیں تو بھارت نے ان کی حمایت سے انکار کر دیا جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس کے خبث باطن اور اس کے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا کھلم کھلا اظہار ہے۔ اس صورت حال میں بھارت اور اسرائیل کے جنونی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھ کر ہی غیر ایٹمی ممالک کے تحفظ اور تخفیف اسلحہ کے لئے پاکستان کی قراردادوں کو موثر بنایا جا سکتا ہے ورنہ ہتھیاروں کی دوڑ میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔