اسلام آباد +لاہور ( خصوصی رپورٹر +خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے اپنی آئینی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کرنیکے لیے خط لکھ دیا۔ جسٹس مظاہر نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی، جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کو خط لکھا ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ بغیر کسی تاخیر کے میری آئینی پٹیشنز کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق 14 دن میں درخواستیں مقرر ہونا تھیں۔جسٹس مظاہر نقوی کے مطابق انہوں نے 20 اور 30 نومبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کرنیکی 2 آئینی درخواستیں دائرکیں، آئینی اور عبوری ریلیف کی درخواستوں کے باوجود کونسل کارروائی جاری ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ بدنیتی پر مبنی بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر میرے بنیادی حقوق کو پامال کیا گیا، آئینی اور عبوری ریلیف کی درخواستیں مقررکرنے میں مزید تاخیر شدید تعصب ہوگا، مزید کارروائی کی بنیاد پرکوئی حکم صادر ہونا آئینی پٹیشنز کی استدعا متاثر کرسکتا ہے، میری آئینی اور عبوری ریلیف کی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی جائیں۔ دوسری طرف جسٹس اعجاز الاحسن کی جوڈیشل کونسل میں بطور ممبر شمولیت چیلنج کر دی گئی، سپریم کورٹ میںدائر آئینی درخواست میں میاں دائود ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کرپشن اور مس کنڈکٹ کا ریفرنس جوڈیشل کونسل میں زیرِ سماعت ہے، سائل کی درخواست پر جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو دوسرا شوکاز جاری کر چکی ہے جس میں 3 آڈیو لیکس کے بارے میں سوال کیا گیا ہے، تینوں آڈیو لیکس مقدمات کی فکسنگ اور غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن اس بینچ کا حصہ تھے جس نے غلام محمود ڈوگر کیس سنا، قانونی اور اصولی طور پر غلام محمود ڈوگر کا مقدمہ سننے والا کوئی جج جوڈیشل کونسل کا ممبر نہیں رہ سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کو جسٹس مظاہر کے خلاف شکایت سننے والی کونسل سے الگ ہونا چاہیے، جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ممبر رہنا آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 9 کے خلاف ہے،عوامی تاثر ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کونسل میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ دوسرے سینئر جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جائے۔