فیصل ادریس بٹ
شک و شہبات کے تمام بادل چھٹ گئے افواہیں دم توڑ گئیں 8 فروری کو الیکشن ہونگے پی ٹی ائی کو بھی الیکشن میں حصہ لینے کی کھلی اجازت ہوگی اعلی سطحی اجلاس میں اھم ترین فیصلے دیکھنا یہ ہوگا کہ آئندہ وفاق اور صوبوں میں کون حکومت بنائے گا آئندہ وزیراعظم کون ہوگا ان مشکل ترین سوالوں کے جواب اگے چل کر پڑھیے
کہا جارہا ہے کہ مسلم لیگ ن گزشتہ ڈیڑھ سالہ پی ڈی ایم کے دور حکومت کی وجہ سے اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔کیو نکہ اس دور حکومت میں مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاسکا مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے پا رہا کہ آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسی معئشیت کو بحرانوں سے نکالنے کا مشکل ترین کام ڈیڑھ سال کے عرصے میں کیسے ممکن ہوسکتا تھا یہ سوال انتہا ئی اہم ہے جبکہ دیوالیہ کی تلوار بھی سر پر منڈلا رہی تھی ایسے میں اگر سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف انتہائی محنت لگن حوصلے سے مشکل فیصلے نہ کرتے تو حالات انتہا ئی مختلف ہوتے میاں شہباز شریف کے پاس دو اپشن ہی تھیں کہ وہ مسلم لیگ ن کی عوامی مقبولیت کے سحر میں ملک کا دیوالیہ کروالیتے اور نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری شریف برادران کے محب وطن ہونے پر انکے بد ترین دشمن یہاں تک کے مشرف بھی انگلی نہیں اٹھا سکے اس لیے عوام اور مک کی محبت سے سرشار میاں شہباز شریف نے حکومت چھوڑے کی بجائے ڈوبتی کشتی کو اپنی پارٹی کی ساکھ داو پر لگا کر بچا لیا اج مہنگائی میں نمایاں ہوتی کمی ڈالر کی گرتی ساکھ تیل کی بیچے اتی قیمتیں شہباز شریف کے سخت فیصلوں کے ثمرات ہیں جو اج عوام تک پہنچ رہے ہیں عالمی ممالک کی پاکستان میں مداخلت ہمیشہ رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی اگر پاکستان بہتری کی جانب گامزن ہوگیا ہے تو اسمیں سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی عالمی سطح پر کی جانے والی کوششیں ہیں عالمی رہنمائوں امریکہ چین سعودی عرب قطر متحدہ عرب امارات ودیگر اہم ممالک پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے پر اگر آمادہ ہوئے ہیں تو اسکی وجہ شہباز شریف ہیں جنہوں نے پاکستان کو پٹری پر ڈالنے کیلیئے اقدامات کیئے ہیں موجودہ نگران وزیر اعظم کی جانب سے کیئے جانے والے اقدامات بھی اسی پالیسی کا تسلسل ہیں جن کی بنیاد شریف برادران نے پاکستان آمد سے قبل رکھ چکے تھے اور اسمیں تمام سٹیک ہولڈرز کی مرضی شامل ہے تاکہ کی عوام کو درپیش مسائل کم ہوسکیں معیشیت بحال ہوسکے اور پاکستان آگے بڑھ سکے موجودہ صورت حال میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے تو مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف اور ان کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی تیاریاں جسس سنجیدگی سے جاری ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن مرکز کے علاوہ بلوچستان خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں حکومت بنانے کی حکمت عملی طے کر چکی ہے اور اور اہم معاملات پر متعلقہ لوگوں کو فرائض سونپے جا چکے ہیں میاں نوازشریف اپنی کور ٹیم میاں شہباز شریف مریم نواز حمزہ شہباز پرویز رشید خواجہ آصف اسحاق ڈار احسن اقبال کو مخصوص فرائض سونپ چکے ہیں اور واضح ہو چکا ہے کہ وہ آئندہ کے وزیر اعظم ہیں کیونکہ ان کے خلاف کیسز بھی اب منطقی انجام کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ویسے بھی گزشتہ تیس سال میں میاں شہباز شریف کو نواز شریف سے علیحدہ ہونے کے عوض وزارت عظمی سے لیکر بڑی مراعات دینے کی ناکام کوشیشیں متعدد مرتبہ کی جاچکی ہیں شہباز شریف اس مرتبہ بھی افواہوں کا قلع قمع کریں گے وہ لوگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکے ہیں جو ن ش علیحدہ ہونے کی باتیں کیا کرتے تھے شہباز شریف نواز شریفکو اپنے والد میاں شریف کی طرح سمجھتے ہیں شہباز کا عشق ہے نواز ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے بھائی کی رضامندی کے بغیر ایک قدم بھی اگے پیچھے کریں چین پاکستان کو بحرانوں سے نکالنا چاہتا ہے پاکستان کو جن حالات کا سامنا ہے اس میں سی پیک کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے تو منظر نامہ بالکل واضح ہیکہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے وطن واپسی پر سب سے پہلے بلوچستان کا دورہ ہی کیوں کیا۔اسکا مقصد یہی تھا کہ مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں سیاسی طور پر مضبوط کیا جائے اور آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو بلوچستان میں حکومت سازی کیلیئے راہ ہموار ہوسکے کیونکہ اگر چین کیساتھ سی پیک کو دوبارہ شروع کرنا ہے تو چین مسلم لیگ ن کو حکومت میں دیکھنا چاہے گا خاص طور پر سی پیک کا تعلق بھی چونکہ گوادر پورٹ اور بلوچستان سے ہے تو اسلیئے میاں نوازشریف نے بلوچستان میں مسلم لیگ ن کو مظبوط کیا ہے اسکے بعد مولانا فضل الرحمان سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا اقدام بھی یہی ظاہر کررہا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں بھی مسلم لیگ ن ہی جے یوآئی کیساتھ حکومت بنائے گی ایم کیوایم کیساتھ بھی مسلم لیگ ن سیاسی طور پر تعاون کرنے کیلیئے عملی اقدامات کا آغاز کرچکی ہے تو یہ سیاسی تعاون مسلم لیگ ن کو سندھ میں بھی اہم کامیابی دے گا اسی طرح ان سیاسی اتحادیوں کیساتھ ملکر مسلم لیگ ن مرکز میں باآسانی حکومت بنا لے گی عام انتخابات کے انعقاد پر سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد شکوک وشبہات اگرچہ کم ہوئے ہیں لیکن اسکے باوجود چند عناصر غیر یقینی پھیلانے میں مصروف ہیں تاہم مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف ثابت قدمی سے منزل کی جانب رواں دواں ہیں اور شاید انہیں یقین ہے کہ عام انتخابات بروقت ہوں گے اسلیئے وہ اسکی تیاری کے بعد جیتنے کیلیئے میدان میں سرگرم ہیں مسلم لیگ ن کو گزشتہ ڈیڑھ سال کی کارکردگی اور مہنگائی ختم نہ کرنے کاسیاسی حریفوں کی طرف سے الزام لگایا جاتا رہاہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اگر شہباز شریف آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ کرتے تو حالات مختلف ہونے تھے یہ شہباز کی سرپرستی میں پی ڈی ایم حکومت کا ہی کارنامہ ہے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا اور اب آگے بڑھ رہا ہے اس دوران مصنوعی لیڈر شپ کو پروان چڑھانے کی بہت سی کوششیں ہوئی ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف اور شہباز شریف نے ڈلیور کیا ہے اور حقیقی قیادت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اگر پنجاب میں حمزہ شہباز کو چار دن حکومت ملنے کے بعد انکی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جاتے تو شریف برادران کا پنجاب مزید ن کا قلعہ بن جاتا حمزہ شہباز نواز شریف کے سپاہی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی طرح بہترین ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں انہوں نے بھی پرویز مشرف اور عمران حکومت کیدور میں کٹھن ازمائشوں کا نہ صرف سامنا کیا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ ثابت قدم بھی رہے پھر وزیر اعلی پنجاب کے عہدے پر بھی اپنی سیاسی بصیرت کا لوہا منوایا جہاں الیکشن کی گہما گھمی شروع ہوچکی ہے وہاں حمزہ شہباز کی انتخابی مہم ٹھنڈی نظر ارہی ہے جو ن۔لیگ کے صدر اور قائدین کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ حمزہ شہباز نے گزشتہ دو دہائیوں سے انتہائی محنت لگن سے پنجاب کی عوام سے اپنی پارٹی کا رشتہ مضبوط کیا ہے ۔ مسلم لیگ ن میں مستقبل میں پاکستان کی قیادت بدرجہ اتم موجود ہے بلکہ بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے تویہ غلط نہ ہوگا۔