ندیم بسرا
سیاست عوام کی نبض شناسی کا دوسرا نام ہے اس میں ماہر کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو فیصلے ، حکمت عملی ، مستقبل کی منصوبہ بندی عوامی توقعات کو سامنے رکھ کرکرتاہے۔پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا اندازہ سوشل میڈیا سے تو لگایا جاسکتا ہے۔اسی طرح مسلم لیگ ن کا بھی سیاسی سرگرمیوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔مگرموجودہ دنوں میں جو جماعت کھل کر سامنے آرہی ہے وہ پاکستان پیپلز پارٹی ہی ہے۔دیکھا جائے تو عوامی سطح پر اتر کر عوام کے سوالات کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی کررہی ہے۔ جن کے جلسوں اور دیگر عوامی اجتماعات سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر بروقت انتخابات کی مانگ کررہی ہے شاید وہ مسلم لیگ ن کو مزید کھلا میدان نہیں دینا چاہتی کیونکہ اس کھیل میں آصف علی زرداری اپنی مہارت کے ساتھ ساتھ اس بات کا بخوبی اندازہ رکھتے ہیں کہ ن لیگ کو مزید جگہ دینے سے ان کی جماعت کیلئے جگہ تنگ ہو جائیگی۔شاید یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری عوامی اجتماعات میں انتخابات کے بروقت انعقاد کا مطالبہ دہرا رہے ہیں۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو کوئی الگ سے ہدف دیا گیا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کریں۔ شاید مولانا بھی ایک طرح سے پیپلز پارٹی سے ڈرے ہوئے ہیں کہ کے پی کے اور بلوچستان میں جے یو آئی کو پیپلز پارٹی سے کوئی خطرہ نظر آرہا ہے۔ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے انتخابات کے امکان پر تحفظات کا اظہار کیا ہو، ان کا یہ کہنا کہ لاہور میں سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ہماری طرف نہیں۔ یہ بات بھی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے حالات سازگار ہیں؟ تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں بشمول ٹانک، لکی مروت اور ان کے آبائی شہر، ڈی آئی اے۔ خان میں پولیس کی بجائے نامعلوم مسلح لوگ رات کو گلیوں میں گھومتے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ ہمارے کارکن مارے جا رہے ہیں،کیا ایسے حالات میں الیکشن ہو سکتے ہیں؟۔ جب اس قسم کی باتیں ہونگی تو پیپلز پارٹی اس کا جواب دینے کا حق بھی محفوظ رکھتی ہے۔پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی عدالت کے فیصلے سے خوفزدہ لوگ انتخابات نہیں چاہتے۔خیبر پختونخواہ کے گورنر حاجی غلام علی کے رشتہ دار مولانا فضل الرحمن کا بیان حیران کن ہے کیونکہ خیبر پختونخوا میں مولانا کی حکومت ہے، پتہ نہیں وہ کون سا سازگار ماحول چاہتے ہیں؟عوامی عدالت کے فیصلے اور پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کی مقبولیت سے خوفزدہ لوگ نہیں چاہتے کہ الیکشن ہوں۔2007 میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی پیپلز پارٹی نے انتخابات میں تاخیر پر کی مخالفت کی، ان کی جماعت نے 2013 اور 2018 کے انتخابات میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف مقابلہ کیا اور 2008، 2013 اور 2018 میں بارودی سرنگوں پر چل کر انتخابی مہم چلائی۔پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے ملک کے موجودہ مسائل کا واحد حل انتخابات ہیں، چیف جسٹس بروقت انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔
جو بات شروع میں کی گئی کہ عوامی اجتماعات میں عوام کا سامنا اس وقت پیپلز پارٹی ہی کررہی ہے اس کی بڑی مثال کوئٹہ میں ہونے والا ان کا یوم تاسیس تھا ان حالات میں پیپلز پارٹی کا کوئٹہ میں کامیاب یوم تاسیس کرنا اور اتنے بڑے اجتماع کو اکھٹا کرنا جس میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہو ایک کامیابی ہی سمجھا جایے گا۔عام انتخابات کی مناسبت سے اب تک قومی دھارے کی دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا دورہ کیا ان میں نوازلیگ اور پیپلز پارٹی کی رہنما شامل تھے لیکن نوازلیگ کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کوئٹہ کی سیاسی ماحول کو زیادہ گرمایا۔یوم تاسیس اس کی مثال ہے۔جبکہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے قائدین کی سرگرمیاں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ شہر کے سب سے بڑے ہوٹل تک ہی محدود رہیں۔پیپلز پارٹی کی قیادت کا قیام بھی اگرچہ اسی ہوٹل میں رہا لیکن اس جماعت نے اپنا تاسیسی اجتماع کر کے کوئٹہ کے سرد ماحول میں سیاسی ماحول کو گرما دیا۔
پیپلز پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یوم تاسیس کا جلسہ کوئٹہ میں رکھا گیا۔ جبکہ پرچموں، بینرز اور پارٹی قائدین کی تصاویر والے پینافلیکس کے جھرمٹ میں کوئٹہ کی فضائیں پیپلزپارٹی کے ترانوں اور جیئے بھٹو کے نعروں سے گونجتی رہیں۔ن لیگ کے اہم رہنمائوں میں سے صرف سابق وزیر اعظم شہباز شریف دورہ کوئٹہ کے موقع پر سیاسی اور قبائلی رہنما نوابزادہ لشکری رئیسانی کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دینے کے لیے ان کے گھر ساراوان ہاؤس گئے جبکہ باقی الیکٹیبلز اور سیاسی شخصیات پارٹی میں شمولیت کے لیے ہوٹل آئے تھے۔اس کے برعکس سابق صدر آصف علی زرداری الیکٹیبلز کے پاس جناح ٹاؤن گئے جہاں الیکٹیبلز نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ اگر دیکھا جائے تو سیاسی حالات الیکشن کے لیے بالکل سازگار ہیں باقی کامیابیوں کے دعوے تو سبھی جماعتوں کی طرف سے کیے جارہے ہیں مگر انتخابی میدان میں عوام کو ساتھ لے کرپاکستان پیپلز پارٹی ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ان کی سنجیدگی ظاہر کررہی ہے جیسے بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ انتخابات میں ’مہنگائی لیگ کو شکست ہوگی ، ملک میں مہنگائی اور بدامنی کا خاتمہ کرنے کیلئے 8 فروری کو ہونے والی انتخابات ہی ان تمام مسائل کا حل ثابت ہوں گے۔