صدر پرویز مشرف کے جس اقدام سے تحریک آزادی کشمیر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا وہ یہ تھا کہ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کی قیادت میں اختلافات کو پروان چڑھایا اور اس کیلئے اپنی سرکاری حیثیت اور وسائل کا بڑی بے دردی سے استعمال کیا جس سے تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
اسی طرح اس دوران میں صدر پرویز مشرف نے ایک اورستم یہ ڈھایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکی روڈ میپ پر عملدرآمد کیلئے وقتاً فوقتاً نئے نئے فارمولے پیش کرتے رہے، کبھی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر کا فارمولا اورکبھی کشمیر کو لسانی خطوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا۔ اگرچہ ان کے پیش کردہ یہ سارے فارمولے تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں کے یکسر منافی تھے۔ لیکن اس کے باوجود انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ہرسال5فر وری کویوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور اعلان بھی کرتے رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ طرز عمل تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف تھا۔یہ امر واقعہ ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے اس طرز عمل کو کشمیری عوام کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام نے بھی مسترد کردیا جس کا نتیجہ 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں ان کی حامی حکمران جماعت ق لیگ کی عبرتناک شکست کی صورت میں سامنے آیا۔ جہاں تک نئی حکومت کا تعلق ہے جو 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے، وہ اس سال 5فروری کو پہلی بار تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے، اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان تقاضوں کو کہاں تک پورا کرتی ہے۔ لہٰذا ہم اختصار کے ساتھ تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کے ان تقاضوں کا ذکر کرتے ہیں تاکہ قوم بشمول حکومت ان تقاضوں کا صحیح طور پر ادراک بھی کرسکے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بھی بنائے۔
تحریک آزادی کشمیر سے یکجہتی کے تقاضے
تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ان تقاضوں کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حق خو دارادیت کی جو تحریک جاری ہے، وہ ریاست جموں و کشمیر کی آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکمیل اور بقاء کی تحریک بھی ہے اور ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائی گزشتہ انیس سال کے عرصے میں کشمیر کی آزادی اور پاکستان کی بقا کی اس تحریک کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ شہداء کے مقدس لہو کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ جن میں مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں، اس کے علاوہ اس عرصے کے دوران میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مسلمان مرد، عورتیں، بچے اور بوڑھے زخمی اور اپاہج ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آج مقبوضہ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی فرد شہید یا زخمی نہ ہوا ہو۔ اسی طرح آج مقبوضہ کشمیر میں بستیوں کی بستیاں ویرانوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کا کوئی شہر یا گائوں ایسا نہیں ہوگا جہاں شہدائے کرام کے مزار نہ ہوں۔ یوں وہ کشمیر جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور رعنائی کی وجہ سے جنت ارضی کہلاتا تھا، بھارت کی سرکاری دہشت گردی کی وجہ سے موت کی وادی میں تبدیل ہوچکا ہے اور کشمیری عوام نے یہ ساری قربانیاں اپنے حق خودارادیت اور پاکستان کی تکمیل اور بقاء کیلئے دی ہیں۔ اگر کوئی شخص اہل کشمیر کی اتنی عظیم قربانیوں کے بعد مسئلہ کشمیر کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل پر بھارت کی آمادگی کے بغیر اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور تجارت کی بات کرتا ہے تو وہ دراصل کشمیری مائوں، بہنوں اوربیٹیوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتا ہے اور وہ شخص تو کسی صورت بھی قابل معافی نہیں جو 5فروری کو تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور اعلان کرنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں بھی حصہ لیتا ہو۔
تحریک آزادی کشمیر کی اہمیت اور اس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ان تقاضوں کا ذکر کرنے کے بعد ہم یہاں اختصار کے ساتھ بعض ایسے اقدامات کا ذکر کرتے ہیں، جن پر عملدرآمد کے بغیر تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے تقاضے کسی صورت بھی پورے نہیں ہوسکتے ۔ یہ اقدامات حسب ذیل ہیں۔
اولاً:۔ ملت پاکستان بشمول حکومت پاکستان اس حقیقت کا شعوری طور پر ادراک کرے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمت کی تحریک کشمیری عوام کی آزادی اور حق خودارادیت کی تحریک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکمیل اور بقاء کی تحریک بھی ہے اوراس تحریک سے بیگانگی قومی خودکشی کے مترادف ہوگی۔
ثانیاً:۔ حکومت پاکستان اس بات کا واضح اور دو ٹوک اعلان کرے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر جو تقسیم برصغیر کے اصولوں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے مطالبے پر مبنی ہے، قائم ہے اور قائم رہے گا۔
ثالثاً:۔ پاکستان چونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی رو سے مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں رائے شماری کے مطالبے اور اس پر عملدرآمد کیلئے جاری تحریک مزاحمت کی تائید و حمایت کرنا پاکستان کا آئینی و قانونی اور اخلاقی فرض اور ذمہ داری ہے۔ جس سے پاکستان لاتعلق اور بیگانہ نہیں رہ سکتا ہے۔
رابعاً:۔ حکومت پاکستان کو اس بات کا بھی واضح اور دو ٹوک انداز میں اعلان کرنا چاہئے کہ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو متنازعہ تسلیم کرکے اسے حل کرنے پر آمادہ نہیں ہو جاتا ہے، اس وقت تک نہ تو بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کسی طرح کی تجارت کی جاسکتی ہے۔
خامساً:۔ صدرپرویز مشرف نے امریکی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے تحریک آزادی کشمیر کی قیادت میں اختلاف کو ہوا دینے کا جو گھنائونا عمل شروع کیا تھا موجودہ حکومت کو فوری طور پر اسے بند کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
سادساً:۔ اہل پاکستان کو حکومتی سطح پر بھی اور عوامی سطح پر بھی، اس عہد کی تجدید کرنی چاہئے کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا ہے، اس وقت تک بھارتی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا۔
سابعاً:۔ اہل پاکستان کو حکومتی سطح پر بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں جو لوگ متاثر ہوئے ہیں ان کو ریلیف بہم پہنچانا ہماری دینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا ہمیں ہر صورت اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔