مکرمی! آج پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی فوج جنگ کیلئے تیار بارڈر پر کھڑی ہے اور اس نازک وقت میں ہر محب وطن کی ایک ہی آواز ہے کہ تمام مسلم لیگی جماعتیں ایک ہو جائیں اور متحد ہو کر اس بحران سے نکلیں اس نازک وقت میں اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جناب محترم مجید نظامی صاحب کی نگاہ بینا جو کہ بدقسمتی سے کسی بھی مسلم لیگی قائد کو نصیب نہیں‘ نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے اتحاد کو قومی ترقی اور ملک کی سلامتی کے لئے اہم اور ضروری خیال کرتے ہوئے اس اتحاد کی کوشش شروع کی اس ضمن میں جناب مجید نظامی صاحب کی کاوشیں قابل قدر اور کردار انتہائی غیر جانبدارانہ ہے۔ جناب مجید نظامی جیسے سچے اور کھرے جنہوں نے ہر دور میں جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے سے دریغ نہ کیا جن کی ملک اسلام اور نظریہ پاکستان کیلئے بے لوث خدمت کی وجہ سے پوری قوم ان کی احسان مند‘ مرہون منت ہے اور ان کے اس کردار کو پورے عالم اسلام اور دنیا میں قدر اور تعریف کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس اتحاد کی تڑپ جناب مجید نظامی صاحب کو ان سیاستدانوں جن کے ضمیر اور خمیر میں مفاد ہی مفاد ہے‘ جب اتحاد کی امید لے کر ایک سچے‘ کھرے اور مخلص مرد آہن ان کے دروازے پر دستک دیتے ہیں تو اپنے آپ کو قائد اعظم ثانی کہلوانے والے کہتے ہیں کہ پہلے کھوٹے اور کھرے کا تعین کریں۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلایا جائے گا اور اپنی لیڈر شپ سے رائے لی جائے گی۔ مسلم لیگ (ق) سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں مشرف کی بے جا حمایت کرنا اور غلط فیصلوں کو ماننا مسلم لیگ (ق) کی بہت بڑی غلطی تھی اگر مسلم لیگ (ق) لال مسجد کے واقع کے دوران ہی حکومت سے علیحدہ ہو جاتی اور مشرف کا ساتھ نہ دیتی اور وزراء استعفے دے دیتے تو شاید الیکشن میں سب کو پیچھے چھوڑ جاتی۔ اپنی حکومت سے پہلے بے نظیر حکومت کے دوران اور بعدازاں مشرف حکومت کے دوران میاں نواز شریف ایک بیان بڑے زور سے دیا کرتے تھے کہ ظلم کی سیاہ رات جتنی طویل اور لمبی ہوتی ہے اس کی صبح اتنی ہی روشن ہوتی ہے میاں صاحب کے گذشتہ فیصلوں کے دوران عوام اس روشن صبح کا انتظار ہی کرتی رہی۔ مسلم لیگ کے اتحاد کا ایک فیصلہ اپنی ذاتی رنجشوں کو دور کر کے نظامی صاحب پر اعتماد کرتے ہوئے کریں مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد سے عوام کو یقیناً وہ روشن صبح ضرور ملے گی۔ جس کا عوام برسوں سے انتظار کر رہے ہیں اور راقم کی یہی گزارش مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین سے ہے لیڈر ہمیشہ ایسے فیصلے کرتے ہیں کہ ان فیصلوں سے ان کی ذات کو فائدہ ہو نہ ہو مگر آنے والے دنوں میں اس کے اثرات سے ملک اور قومیں ضرور مستفید ہوتی ہیں آج تک ہر سیاست دان نے صرف اپنی ذات کے لئے سیاست کی خدا را اب اس ملک کی بقاء اور عوام کی خوشحالی کیلئے سیاست کریں مجید نظامی صاحب جیسی بڑی شخصیت مسلم لیگ کے اتحاد کی خواہش لے کر دونوں لیگوں کے بڑوں کے دروازے پر آئے ہیں مسلم لیگ کے اتحاد کا ایک فیصلہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس اور کھوٹے کھرے کی جنگ چھیڑے بغیر کر لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کھوٹے کھرے کا تعین کرنے والے سچے اور مخلص مجید نظامی صاحب ہوں اور دونوں کے حصے میں کھوٹ ہی کھوٹ آئے۔ آخر میں مجید نظامی صاحب سے گذارش ہے کہ وہ تمام مسلم لیگیوں کو متحد کرنے کے بعد متحدہ مسلم لیگ کی صدارت کیلئے اپنے جیسی غیر جانبدار‘ پاکستان اور عوام کا حقیقی معنوں میں درد دل رکھنے والی شخصیت کا انتخاب کریں کیونکہ راقم کو یقین ہے کہ مجید نظامی جیسے اجلے اور صاف شخص کبھی بھی ایسے سیاست دانوں کی متحدہ مسلم لیگ کی صدارت قبول نہیں کریں گے جن کی وجہ سے ملک اور عوام کا یہ حال ہوا اور ان جیسا شخص ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اگر ایسا نہ ہوا تو خطرہ ہے کہ اتحاد کی کامیابی کے بعد اس متحدہ مسلم لیگ کا حال بھی قائد اعظم کی مسلم لیگ جیسا نہ ہو جائے خدا آپ کا حامی و ناصر ہو۔ (فرحان قریشی …اسلام آباد 0300-5386719)