امن کی آشا… ملت کا لاشہ

Feb 07, 2010

سفیر یاؤ جنگ
جسٹس (ر) نذیر احمد غازی
اب ایک آسان نسخہ یار لوگوں نے یہ ایجاد کر لیا ہے کہ آسودہ زندگی گزارنے کیلئے شہرت کی سیڑھی پر چڑھنا چاہئے۔ چاہے وہ شہرت سستی ہو یا مہنگی، سستی شہرت کیلئے کچھ طریقے ہیں اور ہمارے چھوٹے درجے کے شہرت پسند اپناتے ہیں۔ کچھ طریقے مہنگی شہرت کے حصول کیلئے بھی ہوتے ہیں۔ ان میں مہنگا ترین شاہی نسخہ ضمیر فروشی ہے۔ بسا اوقات خریدار بڑھ جاتے ہیں تو 25% ایمان بھی ساتھ شامل کرنا پڑے تو جی دار لوگ اس امتحان سے بھی گزر جاتے ہیں۔
بیچ آئے سرکوچہ زر جوہر پندار
جودام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے
دراصل جب عزت اور حمیت قومی کی قوت کم پڑنے لگتی ہے تو پھر انسان کا باطنی شرا سے ایسی برائی پر آمادہ کرتا ہے کہ عزت نفس بھی اسی برائی کا ساتھ دیتی ہے۔ عزت نفس تو چھوٹی چیز ہے بعض بھلے مانس قومی عزت کو بھی اپنی ذاتی انا کے تحفظ کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ تاریخ کا سبق کیا ہے ۔ بزرگان قوم کے تجربات کیا بتاتے ہیں؟ اور جغرافیہ کیا تقاضہ کرتا ہے؟ انہیں اس بات کی پرواہ ہر گز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارا بلبل سو رہا ہے۔ ہر شخص سانس بھی آہستہ لے۔ ہمارا کہا ہوا فرمان امروز ہے اور دوسرے کی حقیقت بیانی بھی ژاژ خوائی ہے۔
گذشتہ چند ایام سے وطن عزیز کے غیر عزیز لوگوں نے ایک ایسی اخباری مہم شروع کی ہے جس کا مقصد پنے دشمن قدیم بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانا۔ دل میں انکی محبت کو سمانا ہے اور دماغ میں انہی کے فکر کو بٹھانا ہے۔ ہر روز کچھ بے چارے اور کچھ چارہ گراس دورخی تصویر کے اوپر نیچے اپنے بیانات چھپواتے اور سجاتے ہیں۔ لیکن یہ بھولے شہرت پرست یہ نہیں جانتے کہ وہ ایسی شہرت خرید کر کس کی خدمت کر رہے ہیں۔ یقیناً وہ اپنے دشمن کیلئے نرم رویہ پیدا کرکے اپنی قوت کو کمزوری میں بدل رہے۔
ایک مرتبہ گاندھی خاندان کی باغی بہو سونیا گاندھی نے یہ بیان بڑے ہی طمطراق سے دیا تھا کہ پاکستان پر فوجی چڑھائی کی ضرورت مشکل ہی سے پیش آئیگی کیونکہ ہم نے ثقافت کے میدان میں ان پاکستانی مسلمانوں کی غیرت کو اپنائیت کا لباس پہنا دیا ہے مگر ہمارے لوگ تو انکی محبت میں دیوانے ہوئے جاتے ہیں۔ وہ تو الفاظ بھی انکے استعمال کرتے ہیں تو انکے قلم کا وقار بڑھتا ہے۔ غیرت کو ’’اپنائیت‘‘ میں بدلنے کیلئے جو ترکیب فریب استعمال کی گئی ہے اسکا نام ہے’’امن کی آشا‘‘ دو فاختائوں کی پشت جڑی ہوتی ہے اور منہ مخالف سمتوں میں ہے گویا ایک پیغام یہ ہے کہ امن کی آشائیں ایک دوجے سے منہ پھیرے کھڑی ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہماری امن کی فاتحہ اور ان کی خود ساختہ فاختہ کا منزل نظر ایک ہو ہی نہیں سکتنا اور نہ ہی ہندو بنئے کی نیت میں کبھی بھی ہماری خیر خواہی کا جذبہ جنم لے سکتا ہے ۔ ہمارے نجات دہندہ قوم حضرت قائداعظمؒ کو آپ کبھی بھی تنگ نظری کا طعنہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے بہت ہی قریب اور وسعت نظری سے تہذیب فرنگ اور بنئے کی ادائے تنگ کا مشاہدہ کیا تھا تب کہیں جا کر انہوں نے نہایت غور و فکر کے بعد دو قومی نظریے کو وطن کی شکل دینے کیلئے علم آزادی اٹھایا تھا۔ مجھے یاد آیاد کہ پاکستان کے ایک غیرت مند چیف جسٹس جناب شہاب الدین نے اپنی یادداشتوں میں ایک حقیقت افروز واقعہ بیان کیا ہے۔
’’کہ مجھے اپنی ہمشیرہ سے ملنے کیلئے ایک شہر جانے کا اتفاق ہوا وہاں ایک ریلوے جنکشن پر ٹرین لیٹ ہوگئی اور مجھے سٹیشن پر ٹھہرنے کا پروگرام بنانا پڑا اور وہاں کھانے کا اہتمام بھی مکمل ہوگیا تھا کہ اچانک میرے بڑے بھائی کے ایک ہندو دوست جو ایڈووکیٹ تھا وہاں پر چلے آئے اور مجھے پرانے تعلقات کا حوالہ دیکر مجبور کیا کہ میں انکے ساتھ چلوں اور دوپہر کا کھانا انکے گھر کھائوں۔ بہت انکار کیا لیکن ان کا بہت اصرار بڑھا اور مجھے انکے ساتھ کھانا کھانے کیلئے جانا پڑا۔ گھر پہنچے تو چند منٹوں بعد ملازم نے آواز دی کہ کھانا چن دیا گیا ہے۔ ہم کھانے کے کمرے میں پہنچے۔ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ فرش پر پتوں کی رکابی بنا کر سجاد دیا گیا تھا اور ہم بیٹھ گئے پھر ایک کم ذات ہندو عورت دور سے ہمارے پتوں میں مزید کھانا ڈال دیتی تھی۔ میزبان ہمارے ساتھ کھانا تناول کرنے سے گریزاں تھے۔ میں سمجھا کہ شاید کوئی مجبوری ہوگی مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ انکی مجبوری نہیں ہے بلکہ انکی بدنیتی کی مقہوری ہے اور پھر جب ہم کھانا کھا چکے تو ہمارے میزبان نے بڑی بے رخی سے نیم حاکمانہ انداز میں کہا کہ یہ خالی پتے آپ اپنے ہاتھوں سے خود ہی اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ کیونکہ آج ہمارا نیچ ذات نوکر گھر میں موجود نہیں‘ اس لئے یہ نیچ کام آپ خود کریں اگر ہم کریں تو ہمارا دھرم بھرشٹ(دین ناپاک) ہو جائیگا۔
قارئین! عصبیت کی یہ شرمناک مثال ایک معزز و معتبر چیف جسٹس کے قلم سے تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ پھر ایک اور واقعہ انہوں نے درج کیا کہ میری ایک ہندو نجومی سے ملاقات ہوئی تو اس نے میری جنم پتری کا حوالہ دے کر مجھے بتایا کہ تم اپنے پچھلے جنم میں برہمن تھے اور تم سے کوئی سنگین و شرمناک گناہ سر زد ہوا تو بھگوان نے سزا کے طور پر موجودہ جنم میں مسلمان بنا دیا ہے۔ کس قدر نفرت کہ اگر کوئی ہندو گناہ کرے تو اسے سزا نہ ملتی ہے کہ دوسرے جنم میں اسے مسلمان بنا دیا جاتا ہے۔ یہ گھٹیا عقیدہ بنئے کا ہے۔ مگر ہمارے ارباب خراب رباب کا ہر راگ اپنی تانوں میں بھارت کی لے اڑاتا ہے، ہندوستان کے بندہ ماترم بنے رہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ سرحدوں کی تقسیم انہیں اچھی نہیں لگتی۔ وہاں جاتے ہیں تو اپنے رشتے عرب سے توڑ کر مہا بھارت کی کھتائوں میں تلاش کرتے ہیں۔
ایک بہت ذمہ دار پاکستانی بھارت یاترا کو گئے تو وہاں کی لال پری نے ان پر جادو کر دیا۔ لال پری سے معاہدہ ہوا کہ اگر لال پری کو پاکستان ساتھ لے جائو گے تو ہندوستانی تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ آخر لال پری بھی ساتھ آئی۔ ہوائی اڈے پر پریم کتھا کھل گئی۔ پیٹی میں سے لال پری نکلی، شور مچا، مگر صاحب خود بہت بڑے اودھم مچانے والے تھے شور کو اودھم میں دبا دیا اور بولے ہم تو سبز پری کے نچوڑے ہوئے پسینے سے وضو کرتے ہیں۔ بھلا کچے آموں کو نشہ آور قرار دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ہم تو وہ اچار ڈالنے کیلئے لاتے تھے کیونکہ ہر صبح ہمیں کام پر جانے سے پہلے ترشی کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
دوستو! یہ اب بھی کہتے ہیں کہ مصلے پر بیٹھ کر داروپیو اور امن کی من مانی فاختہ اڑائو۔
میرے وطن کے لوگ بھی ہیں کس کمال کے
وہ دوستوں سے ملتے ہیں دل کو نکال کے
جب دل نکل جائے تو پھر مدارت دوستاں کیلئے کیا بچے گا۔ پھر تو اس گدھ وجود پر دشمن ہی کا راج ہوگا۔
ہمارے ایک استاد جب مہاتما گاندھی کا ذکر کرتے تو اسکی مکاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار دانت پیستے تھے اور پھر کہتے کہ بچو تم نے اس کی پھلوں والی بکری کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ملک شیک کی دیسی مشین تھی پھر دبی ہوئی آواز میں بھینچے ہوئے دانتوں کے ساتھ کہتے
’’مہاطمع‘‘ ’’سراپا لالچی گرو‘‘ کہاں لالچی گرو اور کہاں
فدا کار ملت محمد علی جناح
بھارت کا وجود انگریز کی خیانت اور پاکستان خدا کی عطا فرمودہ امانت
پاکستان کے بارے لوگ منفی جملے استعمال کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ میرے والد گرامی کی مجلس میں ایک صاحب پاکستان کے بارے میں طنز آمیز جملے استعمال کر رہے تھے کہ میرے والد گرامی جو نہایت حلیم الطبع، وسیع الظرف صوفی تھے اچانک جلال بھرے انداز میں نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے بولے کہ وہ میاں خبردار آئندہ ایسی بری بات منہ سے نہ نکالنا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہ معاف کر دیگا لیکن شرک اور توہین مصطفیؐ کو کبھی معاف نہیں کرتا اور یہ بھی یاد رکھ جو شخص پاکستان کو برا کہے یا اس سے غداری کریگا وہ بھی اپنا بدانجام اسی دنیا میں دیکھے گا۔ کیونکہ پاکستان مملکت خدا داد ہے اور اسکی بنیادوں میں پاک طینت مائوں، بہنوں کی ناموس اور معصوم بچوں کا خون شامل ہے۔ ہمارے بزرگ اسلامی حمیت ہی نئی نسل کو منتقل کرتے رہے ہیں اور اسی حمیت ملی کو بقائے وطن کا پروانہ سمجھتے ہیں۔ کسی بھی وقت وہ اس غیرت ایمان کو منافقت کے چکنے گھڑے پر قربان نہیں کرتے۔
حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی ایک محدث کبیر روشن خیال صوفی جو دیوبندی اور بریلوی اکابر علماء کے ممدوح ہیں۔ اپنی خانقاہ میں بیٹھ کر مسلمانوں کے سیاسی حالات سے بالکل باخبر رہتے تھے اور اکابر علما کے مرجع خیر تھے۔
ایک مرتبہ یہی کرم چند گاندھی اپنے نیشنلسٹ مسلمان حواریوں کے جلو میں حاضر خدمت ہوئے۔ (ان دنوں امن آشا کے علمبردار گاندھی سراپا آندھی کو مسجد کے ممبر پر بھی لیجایا کرتے تھے لیکن بے چارے عوام ان خدائی خدمتگاروں کو کچھ نہیں کہہ سکتے تھے)۔
گاندھی کی جرات بڑھی اور وہ یوں گویا ہوئے کہ ہجور آپ کے محمد صاحب ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں ان کا دھرم بھی اچھا ہے۔
قلندر جز دو حرف لاالہ کچھ بھی نہیں رکھتا
مولانا نے جواب میں فرمایا کہ اگر ایسی ہی بات تمہیں سمجھ آتی ہے تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے۔؟؟
ایک ضروری تصیح گذشتہ کالم کے آخر میں کمپوزنگ کے وقت ترتیب بدل جانے سے ایک مصرعہ غلط جگہ درج ہوگیا یعنی یارب رہے سلامت فرماں روا ہمارا دراصل وہاں پر مولانا ظفر علی خان کا شعر درج کیا تھا …؎
ہمارا قافلہ کچھ لٹ چکا اور کچھ ہے لٹنے کو
رسول اللہؐ کو اس کی خبر بادصبا کر دے
مزیدخبریں