یہ سمجھ نہیں آتی کہ اپنے ملک کی بات کریں یا پوری مسلم اُمہ کی، بہر صورت عنوان تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ مسلم اُمہ کے گلِ لخت لخت کی داستان میں سے کچھ عرض کیاجائے، ستاون پنکھڑیوں والے اس گلِ حق نما کی خوشبو اور رنگ سب بھنورے چُرا کر لے گئے، باغباں بھی جاگتے رہے مگر اپنی حفاظت کیلئے اور یوں یہ چمن اُجڑ گیا اس لئے غلام ابن غلام فرما نروائوں نے اس اجڑے چمن میں نئے پھول اگا کر بھی اغیار کے گلے کا ہار بنادئیے، جابر ابن حیان، ابن البیطار، ابن الھیثم، ابن رشد، الادریسی البیرونی، ابن سینا الغرض کس کس کا نام لیں اور کس کس کی دریافتوں، ایجادات اور خیالات کی لمبی کہانی کس کو سنائیں، کون سنے گا اور کون توبہ تائب ہوکر اس گلستان کو پھر سے مہکائے گا، اس کائنات میں امور کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی غلطی کا الزام معاذ اللہ اس چمنستان دہر کے خالق کو نہیں دیاجاسکتا، امت مسلمہ نے کچھ نہیں سب کچھ کھودیا اور آج دشمن نے اس کے صحن میں رستے بنا لئے ہیں ہم نے یہ گناہ کیوں کیا کہ اپنی نسلوں کا ذہنی رابطہ ماضی کے روشن ذہنی تسلسل سے نہیں جوڑا، جہاں سے ہم نے توڑا وہیں سے دوسروں نے جوڑا اور ہمیں اپنے رحم و کرم پر چھوڑا، ستاون اسلامی ممالک کی آپس میں آواز نہیں ملتی البتہ ہم اپنے گذرے ہوئے اچھے ایام کے قصے سنا سنا کر سُن ہوتے جارہے ہیں چونکہ وقت نے ہم سے اپنا دامن کھینچ لیا کیونکہ ہم نے اسے اپنے اور آقائوں کی نذر کردیا یہی وجہ ہے کہ آج ایک بجلی کا بلب بھی ہماری ایجاد نہیں مگر اس کی بنیاد میں ہمارا ہی فکر ہے ،اب فکر کو کون کھود کر اپنی برتری ثابت کرے، آج بھی ہمارا فکر غیروں کی خدمت میں ہے اور ہمارا چند لوگوں کا تعیش ہمارے پاس ہے، ہمارا حال وہی ہے کہ…ع رانجھے مجیاں چرائیاں ہیر لے گئے کھیڑے۔
اس دنیا میں رہنے والوں کی بہتری کی بنیاد نظریے،حرکت محنت اور تغیر پر رکھی گئی ہے اور آگے بڑھنے کا سارا سامان زمین میں اور اُن کی چابی انسانی ذہن میں رکھ دی گئی ہے، اب یہی ہوسکتا ہے کہ زوال کے اسباب بیان کئے جائیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی زمینوں پر رہتے ہوئے بھی وہاں سے غائب ہیں، شیطان اور اُس کی تابع فرمان قوتوں نے غلطی پر ہوتے ہوئے بھی محنت ، حصول علم اور تغیر کی رغبت ترک نہ کی، حق کو حق والے نے بالآخر نمایاں حیثیت تو دینا ہے مگر ہم نے اپنے طورپر حق کو ناحق کے سامنے شرمند ہ کیا،کیا ڈیڑھ ارب مسلمان مل کر اپنے باطل نواز معدودے چند حکمرانوں کو حرف غلط کی طرح نہیں مٹاسکتے، دعائے ابراہیمی کے قبول ہونے وادِ غیرذی زرع (کوئی فصل نہ اگانے والی وادی) پر نعمتوں کی بارش کو اس وادی کے رہنے والوں نے اگر جدید علوم کی ترویج و ترقی پر خرچ کیا ہوتا تو آج حرمین شریفین کی سرزمین وہاں کے لوگ اور حکمران باقی اسلامی دنیا کیلئے رول ماڈل ہوتے، مگر اے بسا آروز کہ خاک شدہ، جن کی طرف اشارہ کیا گیا تھا’’یفسدون فی الارض‘‘ و ہ زمین میں فساد پھیلائیں گے، انہوں نے سارے فساد کا رخ ہماری جانب کردیا،مسلم ممالک کا جو ہر اغیار اڑا کر لے گئے۔
مسلم ممالک میں ایسی معاشرت پیدا کردی گئی ہے کہ ہر میدان کے سربرآوردہ افراد دلبرداشتہ ہوکر وطن چھوڑ کر مغربی ملکوں کا رخ کررہے ہیں اور مغرب اُن سے ایجادات و اختراعات کرا کے اپنے نام سے دنیا میں عام کرتے ہیں، ہمیں تعداد کا تو علم نہیں مگر سینکڑوں ہزاروں سائنسدان، انجینئر ،ڈاکٹر اور یہاں تک کہ علمائِ دین بھی امریکہ میں موجود ہیں، وہاں انہیں عزت دولت سہولت حاصل ہے، ہماری فکر مندی یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہماری روایتوں سے حکایتوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہمارے سروں پر بوم بیٹھا ہے اور بوموں کے سرپر ھُما، دل میں اک درد سا اُٹھتا ہے کہ ہم جملہ مسلمان اپنی ہی زلف دراز میں پائوں الجھائے ہوئے غیر مر دانہ کردارادا کر رہے ہیں، صرف اس امید پر لکھ رہے ہیں کہ خالق ارض وسماء نے کہا ہے، قسم ہے قلم کی اور اُس سے نکلنے والی سطروں کی ، گویا نوک قلم شمشیر براں کا رول ادا کرتی ہے اور یہ قلم ہی ہے جو باطل کو قلم کرسکتا ہے ہم نے کسی کا اس لئے کچھ نہیں بگاڑا کہ ہم بگاڑ ہی نہیں سکتے حالانکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے تم سے جوبن پڑے تیار کرو، قوت حاصل کرو، گھوڑے باندھو، آج ہم غلامی کا شکار ہیں تو اس لئے کہ حکمِ خداوندی پر ہمارے بجائے ہمارے دشمنوں نے عمل کیا اورہم گلے میں طوق اسیری کے سوا کچھ نہ ڈال سکے پھر گلہ کس بات کا اور کس سے؟
اس دنیا میں رہنے والوں کی بہتری کی بنیاد نظریے،حرکت محنت اور تغیر پر رکھی گئی ہے اور آگے بڑھنے کا سارا سامان زمین میں اور اُن کی چابی انسانی ذہن میں رکھ دی گئی ہے، اب یہی ہوسکتا ہے کہ زوال کے اسباب بیان کئے جائیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم مسلمان اپنی زمینوں پر رہتے ہوئے بھی وہاں سے غائب ہیں، شیطان اور اُس کی تابع فرمان قوتوں نے غلطی پر ہوتے ہوئے بھی محنت ، حصول علم اور تغیر کی رغبت ترک نہ کی، حق کو حق والے نے بالآخر نمایاں حیثیت تو دینا ہے مگر ہم نے اپنے طورپر حق کو ناحق کے سامنے شرمند ہ کیا،کیا ڈیڑھ ارب مسلمان مل کر اپنے باطل نواز معدودے چند حکمرانوں کو حرف غلط کی طرح نہیں مٹاسکتے، دعائے ابراہیمی کے قبول ہونے وادِ غیرذی زرع (کوئی فصل نہ اگانے والی وادی) پر نعمتوں کی بارش کو اس وادی کے رہنے والوں نے اگر جدید علوم کی ترویج و ترقی پر خرچ کیا ہوتا تو آج حرمین شریفین کی سرزمین وہاں کے لوگ اور حکمران باقی اسلامی دنیا کیلئے رول ماڈل ہوتے، مگر اے بسا آروز کہ خاک شدہ، جن کی طرف اشارہ کیا گیا تھا’’یفسدون فی الارض‘‘ و ہ زمین میں فساد پھیلائیں گے، انہوں نے سارے فساد کا رخ ہماری جانب کردیا،مسلم ممالک کا جو ہر اغیار اڑا کر لے گئے۔
مسلم ممالک میں ایسی معاشرت پیدا کردی گئی ہے کہ ہر میدان کے سربرآوردہ افراد دلبرداشتہ ہوکر وطن چھوڑ کر مغربی ملکوں کا رخ کررہے ہیں اور مغرب اُن سے ایجادات و اختراعات کرا کے اپنے نام سے دنیا میں عام کرتے ہیں، ہمیں تعداد کا تو علم نہیں مگر سینکڑوں ہزاروں سائنسدان، انجینئر ،ڈاکٹر اور یہاں تک کہ علمائِ دین بھی امریکہ میں موجود ہیں، وہاں انہیں عزت دولت سہولت حاصل ہے، ہماری فکر مندی یہ ہے کہ دنیا بھر میں ہماری روایتوں سے حکایتوں کا سلسلہ جاری ہے اور ہم اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہمارے سروں پر بوم بیٹھا ہے اور بوموں کے سرپر ھُما، دل میں اک درد سا اُٹھتا ہے کہ ہم جملہ مسلمان اپنی ہی زلف دراز میں پائوں الجھائے ہوئے غیر مر دانہ کردارادا کر رہے ہیں، صرف اس امید پر لکھ رہے ہیں کہ خالق ارض وسماء نے کہا ہے، قسم ہے قلم کی اور اُس سے نکلنے والی سطروں کی ، گویا نوک قلم شمشیر براں کا رول ادا کرتی ہے اور یہ قلم ہی ہے جو باطل کو قلم کرسکتا ہے ہم نے کسی کا اس لئے کچھ نہیں بگاڑا کہ ہم بگاڑ ہی نہیں سکتے حالانکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے تم سے جوبن پڑے تیار کرو، قوت حاصل کرو، گھوڑے باندھو، آج ہم غلامی کا شکار ہیں تو اس لئے کہ حکمِ خداوندی پر ہمارے بجائے ہمارے دشمنوں نے عمل کیا اورہم گلے میں طوق اسیری کے سوا کچھ نہ ڈال سکے پھر گلہ کس بات کا اور کس سے؟