راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نمبر تین میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز چوہدری اظہر اور چوہدری ذوالفقارنے مقدمے کا عبوری چالان پیش کیا۔ ایف آئی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ چالان میں سابق صدر پرویزمشرف کا نام بطور ملزم شامل ہے، ان سے تفتیش کی مسلسل کوشش کی گئی لیکن جواب نہیں ملا جس پر انہیں مفرور قرار دے دیا گیا ہے ۔ ستاون صفحات پر مشتمل چالان میں کہا گیا کہ دونوں پولیس افسران سابق سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد بے نظیر کے قتل کے موقع پر پرویز مشرف سے رابطے میں تھے اور ان کے احکامات پر عملدرآمد کررہے تھے جبکہ جائے شہادت کو فوری طور پر دھونا اور دوسرے اقدامات مشرف کے ایماء پرہی کیے گئے۔ ایف آئی کے مطابق بے نظیر بھٹو کے زیر استعمال دو موبائل فون اوردوپٹہ بھی برآمد ہوچکا ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے مطابق ایک فون پرچودہ تا تئیس دسمبر تک اور دوسرے میں چھ تا انتیس دسمبر تک کا ریکارڈ موجود ہے جن میں سے چودہ ایس ایم ایس ڈیلیٹ کیئے گئے ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کو آخری ایس ایم ایس پلوشہ خان ایم این کا موصول ہوا تھا جبکہ پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو کو ای میل پیغام بھیجا کہ ان کی سیکورٹی کا انحصار مشرف کے ساتھ تعلقات پر ہے ، اس میل کو بے نظیر بھٹو نے صحافی مارک سیگل کو فارورڈ کیا تھا تاکہ پرویز مشرف کی یہ دھمکی محفوظ ہوجائے۔ رپورٹ کے مطابق ستائیس دسمبر کو دوپہر تین بجے کے بعد سے قتل تک محترمہ کے موبائل پرکوئی کال نہیں آئی تھی ۔ چالان میں ستاسی گواہان ہیں جن میں سے اب تک چار گواہ عدالت میں پیش ہوئے استغاثہ میں سیکشن اکیس ڈی شامل ہے جو انتہائی سزا دیے جانے کا جرم ہے۔ اس سے پہلے ملزمان سعود عزیز اور خرم شہزاد کی درخواست ضمانت کی سماعت ہوئی۔ وکیل صفائی وحید انجم نے اپنے دلائل میں کہا کہ دونوں پولیس افسران چوبیس روز تک ایف آئی اے کی تحویل میں رہے تاہم ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا، اس لئے انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی ۔