کشمیر کے امکانی حل .... تاریخ کے تناظر میں

 علامہ اقبال نے اس وقت مرزا بشیر احمد قادیانی کو سیکرٹری کے عہدے سے برطرف کر دیا جب اس نے کہا کہ ”میری اولین ترجیح قادیانیت کی تبلیغ ہے“۔ یاد رہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ کچہری میں ملازم تھے اور سرکاری سرپرستی میں روزافزوں اثرات کے حامل تھے۔ نیز درایں تناظر انگریز‘ ہندو اور قادیانی سازباز سے نیشنل کانفرنس بنائی گئی۔ قادیانی وکیل اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ چودھری ظفراللہ کی تشہیر اور سرپرستی بھی اسی دور میں کی گئی جبکہ انگریز سرکار نے قیام پاکستان کے وقت مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے آئی سی ایس مرزا عزیز احمد کو غیر معمولی ترقی دے کر سیالکوٹ کا ڈی سی بنایا اور آج سیالکوٹ میں قادیانی اور عیسائی اتحاد کلیدی اثر و رسوخ کا حامل ہے جبکہ مرزا منظور احمد وٹو عرصہ دراز سے وزیر امور کشمیر ہیں۔
مسئلہ کشمیر کے 3 حریف اور 3 حل ہیں۔ پہلا حل تقسیم ہند کا دو قومی نظریہ ہے۔ جس کی رو سے کشمیر پاکستان کا حصہ بلکہ شہ رگ ہے۔ جبکہ دوسرا حل اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں جن کے تحت اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا الیکشن ہے جو پاکستان یا بھارت سے الحاق کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ تیسرا حل خودمختار کشمیر ہے۔ جس کو جنرل پرویز مشرف کے الفاظ میں ”تھرڈ آپشن“ کہا جاتا ہے۔ خودمختار اور تھرڈ آپشن کا شوشہ شیخ عبداللہ نے 1955ءمیں شروع کیا تھا۔ شیخ عبداللہ نیشنل کانفرنس کے صدر تھے۔ جنہیں متنازع کشمیر کا پہلے چیف ایڈمنسٹریٹر اور وزیراعظم بنایا گیا۔ نہرو نے 1955ءمیں شیخ عبداللہ کو معزول کر کے جیل میں ڈال دیا۔ شیخ نے آل جموں کشمیر محاذ رائے شماری پارٹی بنائی جس کا نعرہ اور مطالبہ خودمختار کشمیر تھا۔ کشمیر محاذ رائے شماری اور لبریشن فرنٹ نے نیشنل کانفرنس کی کوکھ سے جنم لیا۔
برطانوی م¶رخ السٹر لیمپ اپنی کتاب ”کشمیر .... متنازع ورثہ“ میں لکھتا ہے کہ سیکرٹری ریاستی اور وی پی سنگھ نے نہرو اور ما¶نٹ بیٹن کی ایما پر الحاق کشمیر کی جعلی دستاویز تیار کی۔ جو تاحال اقوام متحدہ میں پیش نہیں کی گئی۔ البتہ اس ”جعلی دستاویز“ کی بنیاد پر بھارت نے کشمیر میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ قائداعظم نے جنرل گریسی کو کشمیر میں جوابی کارروائی کا حکم دیا۔ جنرل گریسی نے حکم عدولی کی لہٰذا قائداعظم نے قبائلی مسلمانوں جارحانہ جہاد کا حکم دیا۔ جنہوں نے مظفر آباد‘ میر پور‘ راولاکوٹ‘ پونچھ کا علاقہ‘ گلگت‘ چترال اور ہنزہ پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح پاکستان کی سرحد چین سے جا ملی۔ جو ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری پاک چین دوستی کی بنیاد بنی۔ جب بھارت اور برطانوی کو قبائلی مجاہدین کشمیر کے ہاتھ سارا کشمیر جاتا نظر آیا تو بھارت نے جنگ بندی اور ثالثی کیلئے اقوام متحدہ کو منتخب کیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خودمختار کشمیر کی آپشن نہیں۔ خودمختار کشمیر کی آپشن جنرل پرویز مشرف نے تھرڈ آپشن کے ذریعے اہم بنا دی۔
 تھرڈ آپشن کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کا ووٹ بٹ جائے گا۔ یعنی کشمیر کی غیر مسلم آبادی کی ہمنوا بھارت اور مغرب نواز مسلم تحریکیں نیشنل کانفرنس وغیرہ بن جائیں گی۔ تھرڈ آپشن کے مطابق (L O C) لائن آف کنٹرول حتمی سرحد نہیں رہے گی بلکہ آزاد کشمیر کا سارا علاقہ بشمول گلگت بلتستان صوبہ (ہنزہ اور چترال) بھی شامل ہو گا۔ لہٰذا تھرڈ آپشن کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی سے نہ صرف غداری بلکہ پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سلامتی کیلئے زہر قاتل ہے جبکہ خودمختار کشمیر کی صورت میں کشمیر کی حیثیت سکم‘ بھوٹان اور نیپال جیسی ہو گی جس کی سلامتی بھارت اور اتحادی عالمی برادری کے مرہون منت ہو گی۔
مسئلہ کشمیر کا واحد اور دائمی حل قائداعظم کی جارحانہ جہادی پالیسی ہے۔ بھارت کی کشمیری آبی جارحیت کے تناظر میں جہادی پالیسی کی اہمیت دوچند ہے۔ الحاق کشمیر کے بغیر پاکستان کی جغرافیائی سلامتی ہر دم خطرات میں رہے گی۔ لہٰذا کشمیر کا واحد حل جہاد ہے‘ مذاکرات نہیں۔ محترم مجید نظامی بھارت سے جہادی پالیسی کے احیاءکے خواہاں ہیں۔ جس کو حافظ سعید اور پاکستانی عوام کی بھرپور تائید میسر ہے۔ باقی سب حل فساد ہیں۔ جہاں ہی واحد نجات کا ذریعہ ہے۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن