جموں و کشمیر اور ”محسن ملک“ ۔۔۔!

جموں و کشمیرکے مسلمان پاکستان کو محسن ملک کہتے ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں کو احسان فراموش سمجھتے ہیں جنہوں نے آزادی¿ کشمیر کی جدوجہد کو پس پشت ڈال دیا۔ پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ عام تعطیل ہوتی ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار محبت کیا جاتا ہے، اس طرح مسئلہ کشمیر زندہ رہتا ہے، تاریخ تازہ رہتی ہے البتہ ضمیر سویا رہتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کئی نسلیں نگل گیا ہے اور نہ جانے ابھی اور کتنی نسلیں اس مسئلہ کی نذر ہوں گی مگر جموں و کشمیر کے عوام نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ غلامی کی زندگی نہیں جینا چاہتے۔ پاکستان کا ہر وہ ادارہ یا شخص جو مسئلہ کشمیر کو دفن کر نا چاہتا ہے، ملک و قوم کا وفادار نہیں۔ پاکستان کے سیاستدان بین الاقوامی قراردادوں اور کشمیریوں کی قربانیوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کو یقین ہے کہ پاکستان اپنی ”شہ رگ“ کاٹ چکا ہے اور اب اس قوم میں اتنا دم خم باقی نہیں کہ سر اٹھا سکے۔ جب سر جھک جاتے ہیں تو سر کچل دئیے جاتے ہیں۔ جدوجہد آزادی¿ کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے مسئلہ جموں و کشمیر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”کشمیر پالیسی میں بہت نشیب و فراز آ رہے ہیں جس سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جموں و کشمیر کا مسئلہ ایک کروڑ تیس لاکھ کشمیری عوام کے لئے سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک قوم کا پیدائشی اور بنیادی حق ہے۔ پاکستان ہمارا محسن ملک ہے، وہاں کے حکمرانوں کو جموں و کشمیر کے مسئلہ کو ترجیح دینی چاہئے تھی مگر کچھ عرصہ سے وہ بھارت کے ساتھ تجارت کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دے رہے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ پاکستان میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں برسر اقتدار آئی ہیں انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں مو¿ثر کردار ادا نہیں کیا، اس کے نتیجے میں بھارت کشمیر پر طاقت کے نشہ کا استعمال کر رہا ہے۔ کچھ کشمیریوں کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔ 2010ءمیں عوامی احتجاج ہوا تھا، 125 جوانوں کو شہید کیا گیا اور بہت سے جوانوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے، کشمیریوں سے جیلیں بھری جاتی ہیں۔ بھارت کو یہ حوصلہ پاکستان کی نرم پالیسی سے مل رہا ہے۔ پاک بھارت دوستی کا راستہ جموں کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ پاکستان خود اپنے حالات میں جکڑا ہوا ہے، ہماری بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہمارا مقدمہ لڑنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ سید علی گیلانی اور کشمیری بہن بھائیوں کی مہربانی کہ وہ پاکستان کو محسن ملک تصور کرتے ہیں وگرنہ پاکستان کے اپنے لوگ اس کے احسان مند نہیں رہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا آباد ہے جو پاکستان کے قیام کو بھی ایک غلطی تصور کرتا ہے اور بذریعہ میڈیا پاکستان کی نئی نسل کو بہکایا جا رہا ہے۔ پرانے لوگ نئے شگوفوںسے انتہائی برداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی عمر بھر کی کمائی پاکستان ان کی آنکھوں کے سامنے اغیار کو گروی کر دیا گیا ہے۔ کوئی سیاسی قائد ایسا نہیں جو مسئلہ کشمیر کو ”متنازعہ“ تصور کرتا ہو، پاکستان میں دہشت گردی کے خفیہ ہاتھوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے مگر بھارت معمولی معمولی باتوں پر پاکستان کا ہاتھ بڑی حقارت کے ساتھ جھٹک دیتا ہے مگر ”بے حمیّتوں“ کو پھر بھی شرم نہیں آتی اور بھارت کی جی جی میں لگے رہتے ہیں۔ بھارت کا وزیراعظم پاکستان کا دورہ کرنا پسند نہیں کرتا اور پاکستان کے ”ضمیر فراموش“ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کو ترقی سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدان اور حکمران کان کھول کر سُن لیں کہ جب تک کشمیریوں کو حق خوارادیت نہیں مل جاتا، پاکستان کے عوام بھارت کو دوست ملک تصور نہیں کر سکتے۔ جب تک ہندوستانی حکومت غیر مبہم طریقے سے کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم نہیں کرتی، اس کا اخلاقی، جمہوری، دینی تشخص بحال نہیں کرتی، ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے نہیں کرتی، اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق غالب اکثریت کی خواہش کا احترام نہیں کرتی اور عالمی سطح پر اسکو متنازعہ مسئلہ تسلیم نہیں کرتی، ایک کروڑ بیس لاکھ کشمیریوں کے جمہوری اور آئینی حق اور ہزاروں سال پرانی روایتوں کے تحفظ کا پاس نہیں رکھتی ، نظر بندوں کو رہا نہیںکرتی، تشدد و بربریت کا خاتمہ نہیں کرتی، کشمیریوں کی خواہش کے مطابق ان کی زندگیوں کا فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک آزادی¿ کشمیر کی آواز بلند رہے گی۔ جموں و کشمیر کے عوام پاکستان کو ”محسن ملک“ سمجھتے ہیں تو محسن ملک کے عوام پر بھی یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس اعزاز کو قائم رکھیں اور اپنے سیاستدانوں کو مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کر دیں۔

ای پیپر دی نیشن