کراچی (ثناءنیوز + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے کراچی میں امن و امان کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اور چیف سیکرٹری سندھ سے عدالتی حکم کی روشنی میں تفصیلی جواب آج طلب کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ کراچی امن و امان کیس میں جو حالات بتائے گئے ہیں ان کے مطابق کراچی کے امن میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ شہر کے حالات ایسے ہیں کہ شہری گھروں سے امام ضامن باندھ کر نکلیں۔ حکومت سندھ اشتہار دے کہ شہری اپنے جان و مال کی حفاظت خود کریں۔ اپنی ذمہ داری پر باہر نکلیں حکومت ذمہ دار نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ لوگوں کی زندگی محفوظ نہیں ۔ شہری خوف کا شکار ہوں تو انتخابات شفاف کیسے ہو سکتے ہیں۔ تسلیم کریں پولیس تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل چار رکنی لارجر بنچ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت آئی جی سندھ فیاض لغاری، ایڈووکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک، چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ وسیم احمد اور دیگر حکام کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ چیف سیکرٹری، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کی جانب سے شہر میں گذشتہ دو ماہ کے دوران قتل کے واقعات کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس پر عدالت نے پولیس اور رینجرز کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہر میں 23 ہزار اشتہاری اور مفرور ملزم ہیں، گذشتہ سال 2300 افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کراچی میں 22 ہزار اشتہاری اور مفرور ملزم گھوم رہے ہیں۔ ملزموں کی گرفتاری کے لئے اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 9 پر عمل کرانا چاہتی ہے۔ جسٹس جواد نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ کس کا احتساب ہونا چاہئے۔ کراچی میں لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں تو اس کی حکومت ذمہ دار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے 22 ہزار ملزموں کی رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔ جسٹس خلجی حسین نے کہا کہ بچوں کو امام ضامن باندھ کر باہر بھیجنا چاہئے۔ شاید انتظامیہ نے طے کر لیا کہ عوام کو لوٹنے، قتل کرنے والوں کو پکڑا نہیں جائے گا لوگ اپنے رسک پر گھروں سے باہر نکلیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ کراچی میں کتنے تفتیشی افسر ہیں جس پر ایڈیشنل آئی جی اقبال محمود نے بیان دیا کہ 250 تفتیشی افسران ہیں ۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ صرف 179 تفتیشی افسروں کی رپورٹ جمع کرائی گئی ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سے استفسار کیا کہ کراچی میں کتنے تفتیشی افسر ہیں اس پر آئی جی کوئی جواب نہ دے سکے تاہم قیاس آرائی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دو ہزار تفتیشی افسر ہوں گے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ حکومت اشتہار دے دے کہ شہری اپنی جان و مال کی خود حفاظت کریں۔ پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں 22 ہزار 535 اشتہاری اور مفرور ملزم ہیں اس پر عدالت نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ درست ہے اس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ یہ رپورٹ درست ہے۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ ان ملزموں میں تین ہزار اشتہاری اور 20 ہزار سے زائد مفرور ملزم شامل ہیں ۔ ایڈیشنل آئی جی سندھ اقبال محمود نے عدالت کو بتایا کہ گذشتہ سال کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے نتیجہ میں 2300 افراد جاںبحق ہوئے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ ٹارگٹ کلنگ میں کتنے کیس اے کلاس کئے گئے۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ کیسے قتل کا مقدمہ ایک ہفتے میں اے کلاس کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آپ افسر گھر بیٹھے قتل کا مقدمہ اے کلاس کر دیتے ہیں۔ ایڈیشنل اے آئی جی لیگل علی شیر جکھرانی نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں 800 تحقیقاتی افسر کام کر رہے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ پولیس کے لئے ملزموں کو گرفتار کرنا ممکن نہیں تو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے۔ پولیس موبائلیں کتنی نعشیں اٹھاتی ہیں۔ عدالت نے شہر میں 22 ہزار سے زائد ملزموں کے آزاد گھومنے کی رپورٹ پر حیرانگی کا اظہار کیا۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ اسلحہ لائنوں کا معاملہ صوبائی ہے اور 18ویں ترمیم کے بعد طے ہو گیا ہے کہ یہ معاملہ صوبوں کے اختیار میں آتا ہے تاہم اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ ایسے حالات جن میں کراچی کے شہری خوف و ہراس کا شکار ہوں اور انہیں جان کے خطرات ہوں۔ کیسے ممکن ہو گا کہ پرامن اور شفاف انتخابات ہو سکیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ سندھ وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ اسلحہ سے متعلق قانون سازی کے لئے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو خط بھیجا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ آئین کی نہیں سیاسی باتیں کر رہے ہیں جو معاملہ صوبائی حکومت کا ہے اس میں وفاق کو کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اے آئی جی کہہ رہے ہیں کہ عدالت یا وہ خود جو کہتے ہیں اسمبلی کرنے کو تیار نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ یہی حال رہا تو انتخابات قریب ہیں۔ عوام خود ان ارکان کے لئے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ایس ایس پی نیاز کھوسو نے بتایا کہ لوگ مقدمہ درج کرانے اور گواہی دینے کو تیار نہیں جب تک قانون سازی نہیں ہوتی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ گواہوں کے تحفظ اور اسلحہ سے متعلق قانون سازی کر لی جائے ایسا ہو جائے تو لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ ایک ماہ میں کراچی میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔ان کا کہنا کہ وہ عدالت کو الزام نہیں دے رہے وہ جانتے ہیں یہ کام اسمبلی کا ہے ۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ الیکشن کمشن نے بھرتیوں پر پابندی لگا دی۔ نفری میں اضافہ کیسے کریں۔ ایک ہزار افراد کے لئے ایک اہلکار ہے ۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم ڈیڑھ سال سے کہہ رہے ہیں حکومت کو الیکشن کے قریب آتے ہی یاد آ رہا ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ اب بھتہ کی وصولی کے لئے پرچی دی جاتی ہے۔ کراچی میں اغوا برائے تاوان کی کارروائیوں میں کمی نہیں آئی۔ جب شہری بھتے کی پرچی پر رقم ادا کر دیتے ہیں تو اغوا کار انہیں اغوا کیوں کریں گے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ رینجرز کے کراچی میں ہونے کا کیا فائدہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 18 سال سے رینجرز کراچی میں تعینات ہے اس کی کارکردگی کو بہتر نہیں بتایا جا سکا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ لوگوں کی زندگی محفوظ نہیں تو بتائیں کون ذمہ دار ہے، کس کا احتساب ہونا چاہئے۔ انتظامیہ نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ملزموں کو گرفتار کرنا، 18 سال سے شہر میں رینجرز تعینات ہے، بھاری خرچہ بھی ہو رہا ہے پھر بھی قیام امن میں ناکامی ہے۔ سندھ پولیس کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ نااہل ہے۔
کراچی میں شفاف الیکشن کیسے ہونگے : حکومت سندھ اشتہار دے‘ شہری اپنے رسک پر باہر نکلیں : سپریم کورٹ
Feb 07, 2013