سندھ بلدیاتی ایکٹ محض اسلئے کالعدم قرار نہیں دے سکتے کہ دوسرے صوبوں میں الگ قانون ہے : سپریم کورٹ

Feb 07, 2013


اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقد) سپریم کورٹ نے سندھ لوکل ایکٹ کے خلاف مقدمہ کی سماعت ایڈووکیٹ جنرل کی عدم موجودگی کے باعث 12 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو اس بنیاد پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا کہ تین صوبوں میں ایک قانون ہے اور ایک صوبہ میں الگ قانون ہے ۔ اس حوالے سے کوئی ایسی قانونی مثال دی جائے جس میں عدالت نے اسمبلی کا بنایا ہوا قانون کالعدم قرار دیا ہو ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو خود مختاری حاصل ہے اور اسمبلیاں قانون سازی کی مجاز ہیں جبکہ مقامی حکومتیں خود مختار حکومتیں ہوتی ہیں ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن ممالک میں مقامی حکومتیں ہوتی ہیں ان میں مقامی حکومتوں کے اپنے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جو سہولتیں نیویارک کے شہریوں کو حاصل ہیں ہو سکتا ہے وہ واشنگٹن کے شہریوں کو حاصل نہ ہوں ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے سندھ اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کئے گئے سندھ لوکل باڈیز ایکٹ کے خلاف ضمیر حسین گھمرو و دیگر کی جانب سے دائر مقدمات کی سماعت کی ۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے میاں عبدالرﺅف ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا کہ سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس آئین کی خلاف ورزی ہے اور عدالت اس قانون کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے آرڈیننس نہیں بلکہ سندھ اسمبلی کی جانب سے پاس کئے گئے لوکل باڈیز ایکٹ 2012 ءکا مقدمہ ہے ۔ کوئی ایسا قانون عدالت کو بتایا جائے جس میں عدالت نے اسمبلی کی جانب سے بنایا گیا قانون ختم کیا ہو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی قوانین بنانے کی مجاز ہے سماعت کے دوران میاں رﺅف نے این آر او مقدمہ کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ این آر او کی کسی بھی اسمبلی نے توثیق نہیں کی ہر اسمبلی نے اس کو اٹھا کر پھینک دیا ۔ آپ کس طرح کہہ رہے ہیں اس کی منظوری دی گئی ۔

مزیدخبریں