” وٹّو اِزم “۔ ناکام

وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف سے متعلق، تِین خبریں ایک ہی دِن کے اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ۔ پہلی خبر کے مطابق ۔” وزیرِاعظم 9فروری کو، برطانیہ کے سرکاری دورے پر جا رہے ہیں اور 13فروری کو وطن واپس آئیں گے “۔ دوسری خبر کے مطابق ” وزیرِاعظم Exit Control List ( ای ۔سی۔ ایل) میں اپنا نام ہونے کی وجہ سے ، مِصر میں ہونے والی او ۔ آئی ۔ سی کی دو روزہ سربراہی کانفرنس میں ، شرکت نہیں کر سکیں گے “۔ تیسری خبر یہ ہے کہ ۔” پیپلز پارٹی کی ہائی کمان نے، وزیرِ اعظم کو ، جھنگ میں ، پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا ارادہ رکھنے والے ، مسلم لیگ ق کے رُکن قومی اسمبلی ، شیخ وقاص اکرم کے حلقے میں، جلسہءعام سے خطاب کرنے سے منع کر دیا ہے ۔یاد رہے کہ ۔ رینٹل پاور کرپشن کیس میں ملّوث ہونے کی وجہ سے ، سُپریم کورٹ نے راجا پرویز اشرف اور اُن کے کئی ساتھیوں کے نام ای ۔ سی۔ ایل میں ڈالنے کا حُکم دِیا تھا ، جِس کی وجہ سے راجا صاحب او ۔ آئی ۔ سی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے قاہرہ نہیں جا سکے ، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر موصوف 9فروری کو، برطانیہ کے سرکاری دورے پر کیسے چلے جائیں گے؟کیا سُپریم کورٹ سے خصوصی اجازت نامہ لے کر ؟ کہ اگر انہوں نے سُپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر ،پاک سرحد عبور کرنے کی کوشش کی تو، توہینِ عدالت کے مرتکب ہوں گے اور دھر لئے جائیں گے۔جہاں تک وزیرِاعظم کو جھنگ میں، شیخ وقاص اکرم کے حلقے میں ، جلسہءعام سے خطاب کرنے کی ممانعت کا تعلق ہے ، سُپریم کورٹ نے اُس کی ممانعت نہیں کی ، خود وزیرِاعظم کو اپنی پارٹی کی ہائی کمان کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے ۔گویا سیاسی طور پر اُن کا نام صرف جھنگ جانے کے لئے ای ۔سی ۔ایل میں ڈالا گیا ہے، پنجاب کے باقی اضلاع میں جانے اور وہاں جلسہءہائے عام کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے ۔خبر کے مطابق چودھری برادران نے ،وزیرِاعظم راجا پرویز اشرف سے ملاقات کر کے اور صدر زرداری سے ٹیلی فون پر پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر، میاں منظور احمد وٹّو کی کوششوں سے مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی کی، پیپلز پارٹی میں شمولیت کی خبروں پر سخت احتجاج کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ ایسی صورت میں ، مسلم لیگ ق۔ پیپلز پارٹی سے اپنا اتحاد ختم بھی کر سکتی ہے “۔ دھمکی کارگر ثابت ہو ئی ۔ وزیرِاعظم کے جلسہءعام میں شیخ وقاص اکرم ”Turn Coat“ بنتے بنتے رہ گئے ۔اور میاں منظور وٹو کو بھی خفِیف ہونا پڑا ۔عام انتخابات سے قبل، عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفند یار ولی نے پیپلز پارٹی سے راستہ الگ کر لِیا ہے اور ایم ۔ کیو ۔ایم بھی ترکِ تعلقات کے لئے پر تول رہی ہے ۔ ایسے حالات میں پیپلز پارٹی کی ہائی کمان اور” صاحبِ تِیر کمان “ بھی مسلم لیگ ق کی قیادت کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے ۔ یوں بھی ، مسلم لیگ ق کی بنیاد پنجاب ہے ۔ پنجاب ۔۔۔ جو عام انتخابات سے پہلے ہی ، پانی پتّ کا میدان بن چُکا ہے ۔” تخت لہور“۔ پر قبضہ کرنے کی خواہش نے ہی جنابِ زرداری کو۔ ” قاتل لیگ“ ۔ کو گلے لگانے پر مجبور کِیا اور دوسرے مرحلے پر اُسے، نائب وزارتِ عُظمیٰ کا تُحفہ بھی دینا پڑا ۔ چودھری برادران نے بڑی مہارت سے اپنا ۔” پنجاب کارڈ“۔ استعمال کِیا اور وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد ، گجرات اور لالہ موسیٰ کے چودھری احمد مختار اور قمرزمان کائرہ کو وزیرِاعظم بننے سے روک دِیا ۔ پھر راجا پرویز اشرف کی لاٹری نِکل آئی ۔توڑ جوڑ یا جوڑ توڑ کی سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔صدر زرداری نے، میاں منظور وٹو کو ماہرِ توڑ جوڑ سمجھ کر ہی ، اُن کو پیپلز پارٹی کی صدارت کا تاج بخش دِیا تھا، جو چودھری برادران نے اُچھال دِیا ۔ انہوں نے پہلے ہی دِن صدر زرداری کو ، وٹو صاحب کے بارے میں ، اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیاتھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عُظمیٰ کے دوسرے دور میں ، چودھری حامد ناصر چٹّھہ کی قیادت میں ، مسلم لیگ (جونیجو) ۔ پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت تھی ۔ میاں منظور وٹو ، مسلم لیگ ( جونیجو) کے کوٹے میں ہی ، وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنائے گئے تھے ، پھر ایساوقت آیا کہ وہ ، چٹّھہ صاحب کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ وٹّو صاحب نے اپنی توڑ جوڑ کی مہارت کو ، بُروئے کار لاتے ہوئے جب ، 3مارچ 1994ءکو ، چار وزیروں ، چھ مشیروں اور پانچ پارلیمانی سیکریٹریوں سمیت 16ارکان پنجاب اسمبلی کو مسلم لیگ ( جونیجو) میں شامل کرلیا تو حامد ناصر چٹّھہ نے وٹّو صاحب کو نِکلوا کر سردار محمد عارف نکئی کو وزیرِاعلیٰ بنوا دیا تھا۔ اِس بار بھی کچھ ایسا ہی ہُوا ۔ خبر ہے کہ صدر زرداری نے پنجاب کے معاملات اب ، وٹّو صاحب کے بجائے سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کے سپرد کر دئیے ہیں ۔پورے مُلک میں ،عوام کے مسائل حل نہ کرنے پر ۔” بھٹو ازم“۔ تو پہلے ہی ناکام ہوگیاتھا ، اب پنجاب میں توڑ جوڑ کے حوالے سے۔” وٹّو ازم“۔ بھی ناکام ہو گیا۔ میاں منظور احمد وٹّو پر مسلم لیگ کا ٹھپّا لگا ہے ۔ انہوں نے اپنی مُسلم لیگ (جناح) ۔”پیپلز پارٹی بُرد“۔ کر کے وفاقی وزارت حاصل کی تھی لیکن پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لئے وہ اجنبی تھے ۔ اجنبی ہیں اور۔ اجنبی ہی رہیں گے ۔ توڑ جوڑ کی سیاست ، انتخابات کے بعد شروع ہوتی ہے ،لیکن اپنی ہی اتحادی جماعت کے ۔” بندوں کو توڑنا“۔ وٹّو صاحب کو مہنگا پڑا ۔ اُستاد شعور نے شاید ایسے ہی موقع پر کہا تھا ۔۔۔” توڑ جوڑ ، آپ کو ، ہیں یاد بہت ، سچ کہتے توڑا کیا کیا صنم ، اِس عُمر میں جوڑا کیا کیا ؟ “ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا اتحاد غیرفطری ہے اور خالصتاً ۔” نظریہ ءضرورت “۔ کے تحت ۔ پنجاب کے حوالے سے، پیپلز پارٹی زیادہ ضرورت مند ہے ۔ نواب صادق حسین قریشی، پنجاب میں ، پیپلز پارٹی کے آخری وزیرِ اعلیٰ تھے ، اُ ن کے بعد ، پیپلز پارٹی کو ، پنجاب میں اپنا وزیرِاعلیٰ نصیب نہیں ہُوا ۔ وٹّو صاحب کی جگہ یوسف رضا گیلانی امورِ پنجاب سنبھالنے کے بعد ، کیا تِیر مار لیں گے ؟ کہ وہ تو پنجاب کو توڑنے کا ایجنڈا لے کر میدان میں اُترے ہیں ۔ اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے دوران ملتان میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ، اڑھائی سو ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی، جنوبی پنجاب کی محرومیوںکا راگ الاپتے ہیں ۔عام انتخابات سے پہلے سِیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے بھی صدر زرداری کو ، چودھری برادران کی خواہشات کے سامنے جھُکنا ہو گا ۔” تخت لہور“۔ پر قبضہ کرنے کے خواب کو شرمندہءتعبیر کرنے کے لئے ، وہ چودھری برادران کے لئے بڑی قربانی دینے اور بھٹو خاندان کی قربانیو ں کی داستان کو بھی بھلانے کو تیار ہو سکتے ہیں ۔” بھٹو ازم“ ۔ کے مقابلے میں وہ ۔” وٹّو ازم“۔ کو کیا اہمیت دیں گے ؟ عام انتخابات کے دوران ، پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حیثیت، مسلم لیگ ق کی ذیلی سیاسی پارٹی کی سی ہو گی ۔ کاش مسلم لیگ ن کی قیادت اب بھی مسلم لیگ ق کو اپنا بنا لے ۔ اپنا ہے پھر بھی اپنا ، بڑھ کر گلے لگا لے“کم سے کم بڑے چودھری صاحب کو! بڑے میاں صاحب عمرہ ادا کر کے آئے ہیں، ممکن ہے خیالات میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ اگرچہ وہاں مشرف دور میں جبری قیام کے دوران تو نہیں آئی تھی۔ حالانکہ مسلم لیگ ایک ہو، تو صدر کون ہو گا؟ میاں صاحب اس سوال کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ 

ای پیپر دی نیشن