انسان کو غلام بنا کر رکھنے کا تصور دورِ جاہلیت کا ایک اہم جُزوتھا جس کا خاتمہ ہمارے نبی اکرم ؐ نے فرمایا تاہم یہ رواج دوسرے معاشروں میں کسی نہ کسی صورت پنپتا رہا اُمراء اور روساء اپنی اَنا کی تسکین اور دولت کی دھاک بٹھانے کو مجبور و بے کس لوگوں کو نہ صرف جبری مشقت کا نشانہ بناتے بلکہ طرح طرح کے ظلم وستم بھی ڈھاتے معاشرے کے اِسی طبقہ نے آج تک اِس چلن کو برقرار رکھا ہے آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اِنسان غلام بنائے جاتے ہیں اگر اِن کا شمار کرنے لگیں تو صفحات کم پڑ جائینگے تاہم اُن غلاموں کی ایک گھنائونی صورت وہ کم سن بچے ہیں جن کو گھویلو ملازم رکھا جاتاہے ان میں زیادہ تر تعداد نابالغ بچیوں کی ہے جن کو انکے والدین محض چند روپوں کی خاطر اُمراء کے یہاں چوبیس گھنٹوں کیلئے ملازم رکھوا دیتے ہیں یہ بچیاں نہ صرف جانوروں کی طرح دن رات کام کرتیں ہیں بلکہ اپنے مالکان کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہیں‘ جن میں ایک 10 سالہ بچی کو اسکے مالکان نے چند روپے چوری کرنے کی پاداش میں تشدد کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیا جبکہ دوسرا واقعہ ڈیفنس ایسے پوش علاقے میں ایک سرکاری کالج میں درس و تدریس سے وابستہ پروفیسر کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوا 15 سالہ فضہ بتول کو پروفیسر نے وحشیانہ تشدد کیا کہ وہ معصوم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی‘ فضہ بتول پچھلے پانچ سالوں میں لمحہ بہ لمحہ موت سے دوچار ہوتی رہی لیکن اسکی آہ وفریاد نہ تو والدین تک پہنچی اور نہ ہی حکامِ بالا تک ۔ یہ واقعات محض ان دوبچیوں کیساتھ ہی رُونما نہیں ہوئے بلکہ ایسے سینکڑوں کم سن بچے گھریلو ملازم ہونے کی بناء پر مالکان کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے ہیں لیکن یہ وحشت وبربریت تب ہی میڈیا پر آتی ہے جب کوئی معصوم جان نیم مردہ حالت میں ہسپتال لائی جاتی ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جن کو انکے والدین محض دو ڈھائی ہزار روپوں کی خاطر شہروں میں لاکر گھروں میں کام پر لگا دیتے ہیں غریب والدین کی نظر میں یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے کہ اگر انکے سات یا آٹھ بچے ہوں تو ان سب کو دوسروں کی غلامی میں دیکر پیسے کمائے جائیں اس طرح وہ ایک طرف تو بچوں کی کفالت اور اخراجات سے بچ جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کو ماہانہ آمدنی بھی ہوجاتی ہے۔ اُولاد کی پرورش والدین کی ذمّہ داری ہوتی ہے جبکہ یہاں بچے اپنے ماں باپ کو پال رہے ہوتے ہیں جو کبھی پلٹ کر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ انکے جگر کے ٹکڑے کس حال میں ہیں وہ محض تنخواہ وصول کرنے ہی آتے ہیں ایسے والدین کی حوصلہ اَفزائی شہروں کے وہ متمول گھرانے کرتے ہیں جن میں یہ رواج عام ہے کہ کم معاوضے پر کم عمر ملازمین رکھے جائیں جو ہمہ وقت اِنکے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال پر مامور رہہ سکیں اور انکی عمر 10 سے 15 سال کے درمیان ہواِن سے کام تو جانوروں کی طرح لیا جاتا ہے لیکن خوراک برائے نام ہی دی جاتی ہے یہ کمزور اور لاغر بچے مالکان کے صحت مند بچوں کو اُٹھائے اُٹھائے پھرتے ہیں اور ذرا سی غفلت اور خرابی پر تشدد کا نشانہ بنا دئیے جاتے ہیں ۔ عالمی اِدارہ اطفال برسا برس سے چائلڈ لیبر کو ختم کرنے اور چائلڈ رائٹس کی بات کررہا ہے لیکن آج تک ایسا کوئی قدم اُٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ اس جُرم کا خاتمہ ہوسکے ۔ اس کو ختم کرنے کیلئے اسکی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے جس کی اَولین ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے جو اپنی کام چوری اور ہٹ دھرمی کے باعث کم سن بچوں کو کام پر لگوا دیتے ہیں اگر یہ ننھے بچے کمانے کی خاطر محنت مزدوری کر سکتے ہیں تو انکے صحت مند اور ہٹے کٹے والدین اپنی اُولاد کو کما کر کیوں نہیں کِھلا سکتے ؟ دوسری ذمہ داری معاشرے کے ان شوقین حضرات کی ہے جو اپنی آسائشوں اور آرام کیلئے معصوم جانوں سے کام کرواتے ہیں تیسرے نمبر پر قانون نافذ کرنیوالے ادارے ہیں جو چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے قانون تو بناتے ہیں تاہم ان پر عمل درآمد کیلئے کوئی عملی مظاہرہ نہیں کیا جاتا آخر میں وہ نام نہاد این جی اوز ہیں جو بچوں کے حقوق کے نام پر لاکھوں کی امداد تو لیتے ہیں تاہم آج تک انکی کوئی قابلِ ذکر کارکردگی سامنے نہیں آئی وہ ڈونیشن کی خاطر سمینا ر اور ورکشاپس تو کرواتی ہیں لیکن کبھی اُنھوں نے کسی گھر میں جھانک کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہاں کوئی کم سن بچہ جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ تو نہیں بن رہا ان بچوں پر جسمانی تشدد کیساتھ ساتھ جنسی زیادتی کا اِرتکاب بھی کیا جاتا ہے لیکن آج تک کوئی ایسا نظام ہی واضح نہیں کیا جا سکا کہ گھریلو ملازمین کے اَعدادو شمار اَکٹھے کئے جا سکیں یہ مالکان اس قدر با اختیار ہوتے ہیں کہ وہ چند روپوں کی بناء انکی جان کے کل مالک بن بیٹھتے ہیں تاہم وہ اس امر سے باخبر ہوتے ہیں کہ یہ واقعات کل کو انکے اپنے بچوں کیساتھ بھی پیش آسکتے ہیں کیونکہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا اور ایسے لوگوں کی رسّی اللہ تعالیٰ نے دراز چھوڑی ہوتی ہے لیکن اس کو کھینچنے میں لمحہ بھی نہیں لگتا ۔ اِن لرزہ خیز واقعات کو روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر نہ صرف قانون سازی کرنا بلکہ اِن پر عمل درآمدکی بھی ضرورت ہے ہر محلہ یا علاقہ کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں جو ایسے گھروں کے کوائف اور اَعدادوشمار اکٹھا کریں جن میں کم سن بچوں سے محنت مزدوری کروائی جا رہی ہے متعلقہ تھانے اور سرکاری حکام کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ ان افراد کی طرف سے ہونے والی مزاحمت کو روکا جا سکے ۔