اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ سانحہ شکار پور کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ چلا لیا ہے، دہشت گرد فائدہ اٹھا سکتے ہیں اس لئے معاملات خفیہ رکھے جا رہے ہیں، ملک کو دہشت گردوں سے نجات دلاکر دم لیں گے، سانحہ پشاور کے ذمہ دار نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا معاملہ دو حکومتوں کے درمیان ہے تاہم دہشتگردوں کے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخ کی بہترین کوآرڈینیشن موجود ہے، سانحہ پشاور کے شہداءکے لواحقین کو یقین دلاتا ہوں کہ ذمہ داروں کو بے نقاب کرکے سزا دلائی جائےگی، حکومت اور قوم واقعہ کو بھلا نہیں سکتی، شہداءکے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب اور بدلہ لیں گے۔ میں نے شکار پور واقعہ کی ذمہ داری سندھ میں برسراقتدار حکومت پر عائد نہیں کی لیکن بعض اخبارات میں اسے مس رپورٹ کیا گیا، میں نے تو یہ کہا تھا کہ دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر نہیں ڈالنی چاہئے، تحقیقات میںانٹیلی جنس کو کافی پیش رفت ہوئی، رپورٹ ایوان میں پیش کرینگے۔ سانحہ پشاور کے لواحقین کی سسکیاں ابھی تک سنائی دے رہی ہیں۔ سانحے کے بعد پوری سیاسی وعسکری قیادت پشاور اکٹھی ہوئی۔ سانحہ میں ملوث 6 دہشتگرد تو اسی روز مارے گئے جو اس کے پیچھے ہیں ، ان کے خلاف بارڈر کے پار متعدد دفعہ کارروائی کی گئی جس کی تشہیر کرنا مناسب نہیں ہوگا، دہشتگردی کے واقعات کو اتفاق اور اتحاد کا ذریعہ بنایا جانا چاہئے، ملک میں ماضی میں بڑے بڑے واقعات ہوئے، میرے پاس پورا ریکارڈ ہے کہ دہشتگردی کے واقعات پر وزیراعظم نے کتنے روپے دیئے اور معاوضوں اعلان کئے لیکن معاشی بحران کی وجہ سے پیکج کا اعلان نہیں کرسکے۔ شکارپور سانحہ میں دہشت گرد کا جو سر ملا اس کی پہچان نہیں ہو سکتی، پاﺅں بھی ملا ہے مگر اس سے بھی پہچان نہیں ہو سکتی، انگلی سے ہی پہچان ہو سکتی تھی مگر اس کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ قائد حزب اختلاف کی طرف سے دئیے اعدادوشمار درست نہیں۔ وزیر مملکت عابد شیر علی اس حوالے سے پیر کو وضاحت کریں گے۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ اور متحدہ کے سعید آصف حسین نے جامعہ بیان پر وزیر داخلہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے واقعات کے پس پردہ لوگوں کو عوام کے سامنے لایا جائے اور بے نقاب کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ کے پی کے اور سندھ حکومتیں وفاق پر تنقید کی بجائے دہشت گردی کیخلاف کارروائی بہتر بنائیں۔ وزیر داخلہ دہشت گردوں کے سرپرستوں ک وبے نقاب کریں۔ عبدالستار بچانی نے کہاکہ شکار پور سانحے میں وفاقی حکومت نے معاوضے کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی وزیراعظم اور کسی وزیر نے شکار پور کا دورہ کیا۔ وفاقی حکومت کی عدم توجہ سے سندھ میں احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ وزیر داخلہ قومی ایکشن پلان پر پیش رفت پر بیان دیں۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ 31 مارچ سے قطر سے ایل این جی کی درآمد شروع ہو جائے گی جس سے ملک میں گیس کی قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی، بجلی کی کل پیداوار کا 43 فیصد گیس سے، 25 فیصد فرنس آئل سے اور دیگر کوئلے اور ہائیڈرل پاور سے مکمل کیا جاتا ہے، اس لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا بجلی کی قیمتوں پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا ، پٹرولیم مصنوعات کی عالمی مارکیٹ میں کمی کا سارا فائدہ عوام کو منتقل کردیا گیا ہے، یہ تاثر درست نہیں کہ عالمی مارکیٹ میں زیادہ کمی ہوئی جبکہ حکومت نے عوام کو کم فائدہ دیا۔ وزارت پارلیمانی امور کے تحریری جواب میں ایوان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ انتخابی عذرداریوں کی جلد از جلد سماعت کو یقینی بنانے کےلئے عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ءکی دفعہ 67 میں ترامیم کی گئی ہیں، الیکشن ٹربیونل انتخابی عذر داریوں کے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گا اور کسی فریق کو سات دنوں سے زیادہ مہلت نہیں دے گا ۔ مہلت مقررہ رقم کی ادائیگی پر دی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں معدلہ ملازمت ماتحت عدلیہ اسلام آباد بل 2015ءپیش کر دیا گیا۔