سکیورٹی اور سیاست شعر اور شیر سیلفی اور صفائی

سکیورٹی کا عوامی منظر دیکھئے۔ ایک ڈاکٹر آپریشن کر رہا ہے اور اس کے گلے میں کلاشنکوف لٹک رہی ہے جبکہ ایک نرس ڈاکٹر کی حفاظت کے لئے دروازے پر الرٹ کھڑی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چوڑیاں ہیں اور انگلیاں پستول کی گولی چلانے کے لئے بے تاب ہیں۔ اور مریض بے ہوشی کی دوا کے استعمال سے پہلے سے بے ہوش پڑا ہے۔ ایک کلاس روم میں ٹیچر تختہ سیاہ پر کچھ لکھ رہا ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں رائفل ہے اور تمام طلبہ و طالبات الرٹ بیٹھے ہیں جیسے کسی دہشت گرد کا انتظار کر رہے ہوں۔ لگتا ہے کہ دہشت گردوں کے مقابلے میں ساری قوم ’’دہشت گرد‘‘ بننے کی اداکاری میں مصروف ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ببانگ دہل کہا کہ ہم 80ء کی دہائی کے معاملات بھگت رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دہل ڈھول کو کہتے ہیں۔ محاورہ تو یہ ہے کہ دور کے ڈھول سہانے۔ مگر خواجہ صاحب بتائیں کہ ڈھول گلے میں لٹکا دیا جائے تو وہ بجانا ہی پڑتا ہے۔ وزارت دفاع کا ڈھول نہ وہ گلے سے اتار سکتے ہیں نہ بجا سکتے ہیں۔ جہاں تک 80ء کی دہائی کا تعلق ہے تو یہ صدر جنرل ضیاء الحق کا دور تھا۔ جب خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر مجلس شوریٰ کے چیئرمین تھے اور خواجہ صاحب کو وزیر شذیر بنانے والے وزیراعظم نواز شریف جنرل ضیاء کی مہربانی سے سیاست میں آئے تھے۔ آج کل وہ وہی زندگی گزار رہے ہیں جس کے لئے جنرل صاحب کی دعا اللہ نے منظور کی ہے۔ اے اللہ میری زندگی بھی نواز شریف کو دے دے۔ وہ شہید ہو گئے اور نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ انہی کے مزار پر کھڑے ہو کے نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ میں جنرل ضیاء کے مشن کو جاری رکھوں گا۔ ان سے گزارش ہے کہ کسی دن فیصل مسجد کے پہلو میں جنرل ضیاء کی قبر پر فاتحہ ہی پڑھ آئیں۔ اعجازالحق کو بھی ساتھ لے جائیں جنہیں اس بار وزیر شذیر نہیں بنایا گیا۔
کبھی کبھی کوئی خبر مزا دے جاتی ہے۔ کراچی ائرپورٹ پر تاخیر سے پہنچنے والے وزیر مملکت عابد شیر علی کو بھی ائرلائن پی اے 204کی فلائٹ میں سوار نہیں ہونے دیا گیا۔ وہ بہت شرمندہ ہو کے واپس چلے گئے۔ واپسی پر پی آئی اے کے مظاہرین نے نواز شریف کے خلاف نعرے لگائے۔ ’’گو نواز گو‘‘ حیرت ہے کہ غلطی عابد شیر علی نے کی اور سزا نواز شریف کو ملی۔ نواز شریف اس کے بعد بھی اپنے غیر ذمہ دار عزیزوں رشتہ داروں کو وزیر شذیر بنانے سے باز نہ آئیں گے۔
وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے صوبائی اسمبلی میں شعر تو پڑھے خواہ غلط ہی پڑھے۔ وہ شعر کو شیر سمجھتے ہیں۔ شیر مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح یہ شیر لاغر اور بوڑھا ہو جائے گا۔ بوڑھے سائیں شاہ صاحب نے اچھے بھلے اشعار کو لنگڑا کر دیا۔ بلکہ ان جیسے ایک ملنگ سے پوچھا گیا۔ جنگل میں تمہارے سامنے شیر آ جائے تو تم کیا کرو گے۔ اس نے کہا میں کیا کروں گا۔ جو کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔ آج کل سیاست کے گھاٹ پر شیر اور بکری ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔ سائیں نے بیک وقت کئی اشعار پڑھنے کی ناکام کوشش کی۔ صدارت ڈپٹی سپیکر شہلا رضا کر رہی تھیں۔
شہلا ذوق و شوق اور حسن و جمال والی خاتون ہیں۔ انہوں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی۔ اس طرح وہ کچھ زیادہ خوبصورت لگ رہی تھیں۔ گریس فل اور باوقار دکھائی دے رہی تھیں۔ آخر کار وہ کھل کھلا کر ہنس پڑیں تو سارے ایوان میں کھلکھلاہٹ بکھر گئی۔ مگر سائیں قائم علی شاہ اشعار پڑھنے کی ضد میں پھنسے رہے۔ ایم کیو ایم کے اہل زبان اراکین نے اجتماعی طور پر سائیں کی مدد کی۔ پھر انہوں نے ایک معروف شعر کو سچ مچ زخمی شیر بنا دیا۔ جس کے لنگڑانے پر پورا ایوان کشت زعفران بن گیا
مدعی لاکھ برا چاہے تو کچھ نہیں ہوتا
واقعی اس طرح کچھ نہیں ہو گا۔ مدعی اگر اچھا بھی چاہے تو کچھ نہیں ہو گا۔ پھر سارے ایوان نے باجماعت اونچی آواز میں مل کر شعر پڑھ ڈالا
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لئے بے قراری اور سرشاری کی بات پرانی ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کو ’’صدر‘‘ زرداری بھول جائیں گے کیونکہ انہیں اسے اپنی گرفتاری کی پڑ جائے گی۔ بلاول کو امریکہ کیوں بلایا گیا ہے۔ میں عزیر بلوچ کی گرفتاری کے اس پہلو پر پہلو نہیں بدلنے والا۔ مگر اس پر پیپلز پارٹی کے بدحواس لوگوں کے ردعمل ملاحظہ کریں یہ ردعمل ردی عمل بن چکے ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں کیا فرق ہے؟
سب سے زیادہ دلچسپ اور مضحکہ خیز بیان اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا ہے۔ جس کے لئے میرے ایک کالم کا عنوان تھا۔ اپوزیشن لیڈر ’’پوزیشن لیڈر‘‘ بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
عزیر بلوچ کے ساتھ فریال تالپور کی تصویریں کچھ سیاسی، دوستانہ اور رومانٹک لگنے لگی ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا ہے کہ آج کل زمانہ بڑا تیز ہے۔ تصویروں کا کیا ہے۔ نجانے کون کون کب کب سیلفی بنا لیتا ہے یا بنا لیتی ہے۔ یہ تو زیادتی ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری کی ہمراز اور ہمزاد بہن نے عزیر بلوچ کے ساتھ اپنی سیلفی بنائی ہے۔ اب خورشید شاہ بتائیں کہ سیلفی کس نے بنائی ہے؟
سیلفی تو خود بنائی جاتی ہے۔ تو پھر خورشید شاہ کو علم ہو گا کہ یہ سیلفی فریال تالپور نے بنائی ہے یا عزیر بلوچ نے بنائی ہو گی تاکہ خورشید شاہ اور پیپلزپارٹی والے کہہ سکیں کہ عزیر بلوچ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم اسے جانتے نہیں ہیں۔ صولت مرزا کو بھی ایم کیو ایم والے نہیں جانتے تھے وہ پھانسی چڑھ گیا اور جو کچھ اس نے کہا تھا اسے انتظامیہ بھول گئی ہے۔ یہی بات ثمینہ عزیر کہتی ہے کہ میرے شوہر کو یہ لوگ جعلی مقابلے میں مار دیں گے۔ ثمینہ تسلی رکھیں۔ ابھی بڑی دیر ہے۔

ای پیپر دی نیشن