’’…وہیں بیٹھی رہ گئی ہوں؟‘‘

مدینہ منورہ کے نورانی ایئر پورٹ سے میں پی آئی اے کے جہاز میں آکر بیٹھ گئی تھی۔ اب یہ ایک بین الاقوامی ایئر پورٹ ہے۔ یہاں سے پی آئی اے کی ڈائریکٹ فلائٹ ہے۔ جہاز میں بیٹھتے ہی دل خوش ہوگیا، آرام دہ سیٹیں، ستھرا ماحول، بہترین سروس، اچھا کھانا… نیا جہاز… جی نے کہا اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، پی آئی اے اپنے قدموں پر کھڑی ہوگئی ہے۔ پی آئی اے کا حلیہ درست لگ رہا تھا، عملہ بھی مستعد لگ رہا تھا۔ ساڑھے تین گھنٹے کی فلائٹ ٹھیک وقت پر لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر پہنچ گئی۔
ہم گھر پہنچ کر ابھی عمرے کے سرور و کیف میں ہی ڈوبے تھے کہ پی آئی اے ایک ہنگامے میں ڈوب گئی… شوروغل میں اصلی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ابھی ابھی تو سب کچھ ٹھیک تھا، ابھی ابھی سب غلط کیسے ہوگیا۔ سوشل میڈیا پر ایک غل اٹھا۔
سب کو اس جمہوری ملک میں اظہار خیال کا حق ہے۔ اظہار سے پہلے حقائق جاننے کا حق بھی ہوتا ہے۔ ذرا آن لائن کچھ کہئے …
بھائی میں ابھی عمرہ کرکے آئی ہوں، وطن سے باہر تھی، مجھے کچھ علم نہیں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اچھا تو پھر عزیر بلوچ کے بارے میں کچھ کہئے…
کون عزیر بلوچ… آپ ٹی وی نہیں دیکھتیں۔ بس اتنا ہی دیکھا کہ ایک شخص کو ہتھکڑیاں لگا کے لایا جارہا تھا اور اس کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔
اچھا یہی بتا دیجئے کہ اس کے چہرے پر اتنا اطمینان کیوں تھا جبکہ اس کے کھاتے میں سنگین جرم ہیں۔ یہ سربستہ راز ہیں، آپ ہی تو کھولنے جارہے ہیں۔ مجھے معاف کردیجئے۔ میں نے وہ جو پل بھر کی خوشی پی آئی اے کے نئے جہاز میں بیٹھ کر محسوس کی تھی، چھنتی نظر آرہی ہے۔
عجیب بات ہے، میں بین الاقوامی پروازوں میں ہمیشہ PIA کو ترجیح دیتی ہوں۔ مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں۔ جب کبھی ملک سے باہر جانے کی توفیق ہوئی، بچوں کے ساتھ یا تنہا، سیاسی وفود میں یا ادبی وفود میں… کسی بھی ملک کی سرزمین پر پی آئی اے کا جہاز کھڑا دیکھ لوں تو یوں لگتا ہے کہ میکہ نظر آگیا۔ پی آئی اے کو بھلا میکے سے کیا نسبت؟ آنکھ کھولتے ہی ماں کا آنگن نظر آتا ہے۔ ہمیں ہوش سنبھالتے ہی پی آئی کا فلیگ نظر آگیا۔ پی آئی اے کو پاکستان کے ہر آنگن سے نسبت ہوگئی۔
پھر بتدریج میکے کا آنگن کس نے اجاڑا، بیٹوں نے یا بہوئوں نے؟ یاد آیا 2011ء جنوری میں، میں نیویارک سے پاکستان آرہی تھی، ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے چھوٹے بڑے عملے کو پریشان اور بڑبڑاتے دیکھا۔ ایک صاحب کو بلاکر وجہ جاننا چاہی تو وہ بولے پی آئی اے باقاعدہ منافع میں جارہی ہے مگر سیاسی بزرجمہر اسے نجی کمپنی بنا دینے پر زور لگا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ایک ہفتے میں نیویارک کے لئے تین پروازیں چلتی ہیں اور کینیڈا کے لئے دو پروازیں چلتی ہیں، آنے جانے میں ایک سیٹ بھی خالی نہیں ہوتی۔ ہمارا جہاز بھی بھرا ہوا آیا تھا۔
اسی سیاسی دور میں قومی اسمبلی کے اندر یہ بھی سنا گیا کہ پی آئی اے نجی کمپنی بناکے اس کی قومی اہمیت کو کم کرکے ایک بڑی شخصیت کی ہمشیرہ کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی ایک پرائیویٹ ایئر لائن چلانا چاہتی ہیں۔
اس زمانے میں ہم نے بھی اس محکمے کے متعلقہ لوگوں سے اندر کی باتیں معلوم کرنے کا قصد کیا تھا۔ سٹیل مل کے ساتھ کیا ہوا، کبھی خدا توفیق دے تو کسی قدیم ریٹائر ملازم سے حقیقت حال جاننے کی کوشش کیجئے گا۔ اس میں غیر ضروری بے جا سیاسی بھرتیاں تواتر سے کی جاتی رہیں، جو بھی سربراہ بن کے آیا، اس نے ہزاروں کی تعداد میں بندے بھرتی کئے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں، کارکردگی صفر ہوتی رہی، نفری بڑھتی رہی، مل ہانپتی رہی۔ پھر ہمارے ہاں نااہل، ناتجربہ کار سربراہ بنانے کی، دوستوں کو نوازنے کی، دشمنوں کو چڑانے کی، معاملے کو لٹکانے کی پرانی ادا ہے، یہی کچھ پی آئی اے کے ساتھ ہوا۔
نااہل لوگوں کو مشورے دینے کے لئے محکمانہ دانشور نکل آتے ہیں جو تاک لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ پھر وہ بڑے خلوص سے کہتے ہیں، سرجی اِدھر سے ذرا سی ڈنڈی ماریں تو اُدھر سے سونا نکل آئے گا۔ڈنڈیاں مروا کے گھر کے بھیدی اپنا حصہ بغل میں دباتے ہیں اور ریٹائرمنٹ لیکر کسی دوجے دیس جا بستے ہیں۔ کبھی اللہ توفیق دے تو صرف کینیڈا کے بینکوں سے ان کے گوشوارے منگوا کر دیکھیں۔ اس لوٹی ہوئی دولت کے بل بوتے پر انہوں نے اپنی اولادوں کو بینکوں میں اچھی نوکریاں دلوا رکھی ہیں اور خود آراستہ و پیراستہ گھروں میں آسودہ بڑھاپا گزار رہے ہیں۔ کبھی ضمیر کچوکا مارے تو کہہ دیتے ہیں
جب حشر کا وقت آئے گا اس وقت دیکھا جائے گا!
ذہن ابھی تک وہیں اٹکا ہے، کیا بات کروں؟
وہ کیسی دنیا تھی، اس دنیا سے آکر بھی کسی شے کی ہوس باقی رہ جاتی ہے؟ وہ کیسے لوگ تھے صبح پھوٹنے سے پہلے اٹھ کر ایک جانب دوڑتے تھے، گروہ کے گروہ۔ نہ جانے کہاں سے نکل کر آرہے تھے، آتے جاتے تھے۔ بچے بوڑھے، جوان، عورتیں مرد۔ وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھتے تھے مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ آگے پیچھے، دائیں بائیں دوڑتے آتے تھے۔ سب ایک ہی جانب جاتے تھے، سب ایک ہی طرف دیکھتے تھے۔ سب کی نگاہیں ایک ہی طرف ہوتی تھیں، سب کو ایک ہی طلب ہوتی تھی، سب ہی دوڑ کر جلد پہنچنا چاہتے تھے۔ کوئی کسی کو گراتا نہیں تھا۔ کوئی کسی کو دھکا نہیں دیتا تھا۔ کوئی کسی کا مصلیٰ نہیں چھینتا تھا۔ کوئی اپنی جگہ پر الاٹمنٹ کی چٹ نہیں لگاتا تھا۔ کسی مصلیٰ پر وی آئی پی لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا۔ جو پہلے اندر داخل ہوتا تھا، وہ اگلی صف میں بیٹھ جاتا تھا۔ جو سب سے آخر میں آتا تھا، اس کو بھی جگہ مل جاتی تھی۔ کوئی کسی کی بولی نہیں سمجھتا تھا مگر اللہ کی بولی سب سمجھتے تھے۔ جب اللہ کی زبان میں آواز پڑتی تھی تو وہ تعمیل میں دوڑتے تھے۔
قافلے کے قافلے، گروہ کے گروہ، ہر رہائش گاہ، ہر آسائش گاہ سے نکلے ہی چلے آتے تھے۔ نقاب اوڑھے ہر صبح ان کو دیکھتی تھی۔ صبح کا نقاب اٹھنے سے پہلے مسجد نبویؐ بھرجاتی تھی۔
یا انہوں نے اپنے ہونے کا راز پا لیا یا انہیں پتہ چل گیا کہ
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں!
یہ ساری دنیا سے آئی ہوئی خلقت یہاں ایک حلئے اور ایک مزاج میں ہوجاتی ہے، یہ کیسا جہان ہے جس میں کسی کی اپنی کوئی شناخت نہیں۔ پھر بھی ایک مقصد ہے، ایک جواز ہے، ایک دھن ہے، ایک لگن ہے۔ آتے ہی مزاج بدل جاتے ہیں، انداز بدل جاتے ہیں، اطوار بدل جاتے ہیں۔
تیرا گھر ہے، تیرے حبیب کا گھر ہے، یہاں صرف محبت کے قواعد رائج ہیں، عشق کا نصاب رائج ہے۔ یہاں آکے سب کچھ پیچھے رہ جاتا ہے، سب کچھ بھول جاتا ہے۔
پتہ نہیں وہاں کس کونے میں، کس مصلیٰ پرمیں اپنا آپ چھوڑ کر آگئی… اور یہاں اس دنیا میں، تیری اس دنیا میں، وہی ہنگامے ہیں جبکہ سب جانتے ہیں کہ تُو سب جانتا ہے، تجھ سے کچھ بھی چھپا نہیں، مگر سب جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔ وہاں سے آتے ہیں، یہ لوگ بندے تو رہتے ہیں، بندگی کی ادا بھول جاتے ہیں۔ کوئی شے تبدیل نہیں ہوتی… وہی بندے وہی ہنگامے، کتنا فرق ہے تیرے گھر اور اس دنیا میں… پھر وہی باتیں، پھر وہی گھاتیں ؎
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

ای پیپر دی نیشن