زندگی میں رشتے ناطے

زندگی میں ہم بہت سے رشتے ناطوں میں بندھے ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ رشتے ہم نے نہیں بنائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان رشتوں کی ڈوریوں میں پروکر بھیجا ہے۔ جیسے ماں باپ، بہن بھائی اور ایسے ہی دیگر رشتے لیکن کچھ ناطے ایسے ہیں جو ہم خود بناتے ہیں۔ جیسے دوست بنانے میں ہم آزاد ہوتے ہیں کہ اپنے لئے ایسے دوست تلاش کریں جن سے ہماری ذہنی ہم آہنگی ہو اس قسم کی رشتہ داری یا ناطہ داری اس وقت کی جاتی ہے جب مرد اور عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔نکاح یا شادی ایک ایسا مرحلہ ہے جس میں نئی رشتہ داریاں بنتی ہیں۔ مرد اور عورت ایک نئے رشتے میں منسلک ہوتے ہیں جسے میاں بیوی کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں رشتہ عام طور پر ماں باپ یا بزرگ طے کرتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ کام بچے خود بھی کرلیتے ہیں اور اپنے لئے اپنا جیون ساتھی منتخب کرتے ہیں۔ ان دو صورتوں میں سب سے اہم چیز Compatability (ملتے جلتے معاشی اور معاشرتی حالات اور عادات و اطوار کی ہم آہنگی) ہے جو رشتے مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ظاہری اور مادی چیزوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور وہ چیزیں نظر انداز کردی جاتی ہیں جو اس رشتے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں یعنی کردار و سیرت یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ رشتے نہ نبھاپانے میں بچوں کی سوچ میں پائی جانے والی ناپختگی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ان رشتوں کو نبھانے کے لئے بلکہ کسی بھی رشتے کو نبھانے کے لئے صبروتحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت کچھ برداشت کرنے کے بعد ہی اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے لیکن عام طور دیکھا گیا ہے کہ جب لڑکے یا لڑکی کو اس رشتے کے لئے منتخب کیا جاتا ہے تو زور اس کی ظاہری خوبیوں پر ہوتا ہے اس وقت اس کے اخلاق و اطوار کو زیادہ توجہ نہیں دی جاتی شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل کی توجہ ظاہر داری پر ہے۔ لیکن زندگی خوبصورت بنتی ہے اندر کی خوبصورتی سے جب اس خوبصورت بندھن کو باندھتے ہوئے فریقین صرف ظاہری خوبصورتی اور امارات کے بجائے باطنی خوبیوں کی قدر دانی کریں گے تو نہ صرف پائیدار رشتے استوار ہوں گے بلکہ معاشرے میں اس امر کی ضرورت سمجھی جائے گی کہ بچوں اور بچیوں کی بہترین اخلاقی تربیت کی جائے صرف خوبصورتی یا مال و دولت کا ہونا کامیاب رشتوں کی ضمانت نہیں ہوسکتا جب تک نیت نیک نہ ہو کوئی بھی رشتہ نبھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی حصرت محمد نے ہمیں نصیحت کی ہے کہ اچھی بیوی کا انتخاب کرتے ہوئے اگر ان تین چیزوں یعنی خوبصورتی، امارت اور نیک اطوار میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہو تو نیک اطوار کو کیا جائے۔
بہترین معاشرے کی تعمیر میں اچھے خاندانی نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کےلئے تمام رشتوں کو جوڑ کر رکھنا ازحد اہم ہے۔ یہ رشتے خواہ وہ ہوں جن کے ساتھ ہم پیدا ہوئے ہیں یعنی ماں باپ کے اور رحم کے رشتے جن کے حقوق کے بارے میں ہمیں واضح احکامات دے دئیے گئے ہیں اسکے بعد وہ رشتے آتے ہیں جو انسان خود استوار کرتا ہے۔ انکے بھی اپنے حقوق و فرائض ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ ہر رشتے کی اہمیت کو سمجھا جائے اور ان رشتوں کو خوبصورتی سے نبھایا جائے۔ والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے ان میں مثبت رویے پیدا کریں انہیں عفوودر گزر کا سبق دیں جب انسان زندگی میں برداشت کرنا اور نظر انداز کرنا سیکھ لیتا ہے تو بہت سی ایسی پریشانیوں سے بچ جاتا ہے جو صرف ہمارے منفی رویوں کی وجہ سے ہمیں بھگتنی پڑتی ہیں۔اگر ہم شکایتی طرز فکر کی بجائے شکر گزاری اپنالیں تو نہ صرف یہ ہمارے لئے بہترین ہوگا بلکہ پورے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی۔ ہر شخص کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی ذات سے کس طرح دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکتا ہے کس طرح وہ اپنے گردو نواح میں خیر اور بھلائی پھیلا سکتا ہے لیکن ہوتا اکثر اسکے برعکس ہے ہر شخص چاہتا ہے کہ ہر چیز اور بھلائی اس کو ملے خواہ اس کا اپنا کردار و عمل کتنا ہی منفی کیوں نہ ہو لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ اگر زندگی کو مثبت اور خوشگوار بنانا ہے تو اپنے اندر کو خوبصورت بنا لیں۔ زندگی خودبخود خوبصورت ہوجائے گی زندگی میں ہر رشتہ خوبصورت ہوتا ہے لہٰذا اس کو خوبصورتی سے نبھانا چاہئے۔

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

ای پیپر دی نیشن