وزیر خزانہ ناقدین سے تنگ آئے تو انہوں نے وکیل صفائی بن کر مسلم لیگ ن کے دور میں لئے گئے قرضوں کا دفاع اس طرح کیا کہ ایک طویل وضاحت نامہ قومی اخبارات میں شائع کرا دیا۔ ناقدین کو تشویش اس بات پر ہے کہ قرضوں کا پلازہ آسمان کو چھونے جارہا ہے۔ کیا ملکی اکانومی میں اتنی سکت ہے کہ وہ یہ بوجھ اتار بھی سکے؟ بیرونی کرنسی کے حصول کا بڑا ذریعہ برآمدات ہیں جو سکڑتی جارہی ہیں‘ ہم قرضوں کی اس لئے پرواہ نہیں کرتی کہ یہ ہمیں آئی ایم ایف کی دکان سے باآسانی مل جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے نزدیک قرضے محبت کی قینچی نہیں بلکہ محبت کی پینگیں اور چڑھاتے ہیں۔ اسحاق ڈار کی نگاہ میں 2021ء تک اوسطاً پانچ ارب ڈالر سالانہ قرضہ لیا جاتا رہے گا۔ سڑکوں‘ پلوں‘ میٹرو بسوں اور پاور یونٹوں کے آئے دن افتتاح سے وزیراعظم نہال ہو رہے ہیں کہ خوب ترقی ہو رہی ہے۔ سی پیک کے تحت بجلی کی منصوبوں نے بھی سر اونچا کر رکھا ہے۔ وزیر خزانہ کے خیال میں حکومت کی اقتصادی کارکردگی پر تنقید قومی خدمت کے برعکس بات ہے۔ ان کی تنقید سے سرمایہ کاروں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہچکچانے لگتے ہیں اور یوں کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ حکومت کے سامنے قرضے محدود رکھنے کا قانون ایف آر ڈی ایل کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ حکومت کو آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی باتیں اس لئے پسند آتی ہیں کہ ہم ان کے پرانے گاہک ہیں‘ دکاندار گاہک کی تعریف نہیں کرے گا تو وہ کسی اور دکان کا رخ کرسکتا ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں بھی اپنی مگرمچھ ساہوکار اداروں کی تابع فرمان ہیں۔ وزیر خزانہ کے نزدیک ملکی اور غیرملکی قرضوں کے رسک لیول میں فرق ہے۔ جون 2016ء میں گراس قرضہ 19.68 کھرب روپے جبکہ نیٹ قرضہ 17.83 کھرب روپے تھا۔ اس رقم میں 11.78 کھرب روپے ملکی جبکہ 6.05 کھرب روپے غیرملکی قرضہ تھا۔ نیٹ قرضوں کا 66فیصد ملکی قرضوں پر جبکہ 34فیصد غیرملکی قرضوں پر مشتمل ہے۔ ایف آر ڈی ایل قانون کے تحت قرضہ جی ڈی پی کے 2فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ 2.4فیصد ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 650 ارب روپے ہے۔ مجموعی طور پر حکومت پاکستان کے ذمے ادائیگیوں کی رقم 2000 ارب روپے ہے۔ سرکاری انتظام میں بیل آئوٹ پیکیج مانگ کر چلنے والے ادارے حکومت کے ذمہ واجبات اور ادائیگیوں کو بڑھاتے جارہے ہیں۔ سی پیک کیلئے حکومتی ضمانتوں کو سامنے رکھا جائے تو ہمارے قرضے جی ڈی پی کے 3فیصد سے کم نہیں ہیں۔
وزیر خزانہ نے بیرونی قرضوں کی بتائی جانے والی 73ارب ڈالر کی رقم کو مسترد کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جون 2016ء تک 12ارب ڈالر کے قرضے اتارے ہیں۔ اتنی ادائیگی کے باوجود حکومت کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کی مالیت 23ارب ڈالر ہے۔ ناقدین کے اعدادوشمار کے مطابق جون 2014ء تک بیرونی قرضوں کی رقم 74ارب ڈالر تھی‘ صرف پچھلے 6ماہ میں بیرونی قرضوں میں 4ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے بقایا 6ماہ میں اس رقم میں مزید 4ارب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے۔ ہم ڈیفالٹ سے ایک ہی شکل میں بچ سکتے ہیں کہ ہماری برآمدات میں معجزانہ طور پر اضافہ ہو جائے اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری امڈ کر آجائے۔ وزیراعظم کا ایکسپورٹ پیکیج ضرور رنگ دکھائے گا۔ وزیر خزانہ کچھ بھی کہیں یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ 10سال میں پاکستان پر قرضوں کی برسات رہی ہے‘ ہم ڈیٹ ٹریپ میں مدت سے آئے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2020ء تک بیرونی قرضوں کی رقم 110 ارب روپے تک پہنچ چکی ہوگی۔ ڈیفالٹ کا درد شروع ہونے سے پہلے ہم دوا لینے کیلئے واشنگٹن میں واقع آئی ایم ایف کلینک پر ایک بار پھر بیٹھے دکھائی دیں گے۔ 2020ء تک ہم اپنی برآمدی آمدنی کا 40فیصد قرضے اتارنے پر خرچ کر رہے ہونگے‘ ہمیں سالانہ 12.5 ارب ڈالر کرنٹ اکائونٹ کے خسارے کا سامنا ہے۔ سی پیک منصوبوں کیلئے پلانٹ اور مشینری کی درآمد سے اس خسارے میں مزید اضافہ ہوگا۔ فنانسنگ گیپ کو کوئی بھی نہیں جھٹلا سکتا۔ 2018-19ء الیکشن کا سال اور آئی ایم ایف کی طرف واپسی کا سال بھی ہوگا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنے ادوار میں مجموعی طور پر بیرونی قرضوں میں 49ارب ڈالر کا اضافہ کیا۔ 2008ء سے 2016ء تک 32.6 ارب ڈالر جبکہ 1990ء کی دہائی میں 17.4 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ بیرونی قرضوں کی 25فیصد رقم کمرشل شرح سود پر لی گئی ہے۔ ہمیں قرضوں کا مقابلہ کرنے کیلئے 6فیصد سالانہ اکنامک گروتھ ریٹ کی ضرورت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم حد سے زیادہ مقروض ہونے کے باوجود ’’یونان‘‘ نہیں بنے۔ حکومت کے مالیاتی مشیروں اور ناقدین کا مناظرہ ضروری ہے۔ 2018ء سے ہمیں چین کے کمرشل قرضوں کی واپسی بھی کرنی ہے۔ درآمدات دوگنی ہوگئی ہیں جبکہ برآمدات گر کر بیرونی ملک پاکستانیوں کی ترسیلات کے برابر آگئی ہیں۔
30جون 2016ء کو پاکستان 22.459 کھرب روپے کا مقروض تھا جبکہ 30جون 2015ء کو یہ رقم 19.846 کھرب روپے تھی، گویا ایک سال میں 2.61 کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔ جون 2008ء میں کل قرضہ 6.1 کھرب روپے تھا‘ 2012ء میں بڑھ کر 12.37 کھرب ہوگیا۔ زرداری دور میں قرضوں میں 6.7 کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔ قرضے محدود رکھنے کا قانون 2005 ء میں بنایا گیا تھا۔ قانون منہ دیکھتا رہ گیا اور قرضہ جو جون 2008ء میں 6.1 کھرب تھا‘ جون 2016ء میں 22.5 کھرب ہوگیا‘ 8سال میں قرضہ 250 فیصد بڑھ گیا۔
ایف آر ڈی ایل کے تحت حکومت پاکستان اس بات کی پابند ہے کہ اکانومی کے ٹوٹل سائز کے 60 فیصد سے کم قرضوں کا حجم رکھے‘ اگر اکانومی کی تجوری میں 100روپے ہیں تو 60روپے تک قرضہ لے سکتی ہے لیکن حکومت 66.5 فیصد تک قرضہ لے چکی ہے‘ مقررہ حد پار کرنے پر اس کا چالان کرنیوالا کوئی وارڈن نہیں۔ حکومت کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ وہ فاریکس ذخائر میں اضافے کیلئے بیرونی قرضے لیتی ہے۔ ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے ڈیٹ ٹو جی ڈی پی ریشو کو 50فیصد سے کم رکھنے پر زور دیتے ہیں۔ جیب میں سو روپے ہوں تو پچاس روپے سے زائد قرضہ نہ لیں تاکہ قرض کی واپسی مشکل نہ ہو۔ ڈیٹ مینجمنٹ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے‘ جس طرح حکومت نے پچھلے سال ایف آر ڈی ایل ایکٹ 2005ء میں اپنی آسانی کیلئے بہت سی تبدیلیاں کرلیں۔ حکومت آئندہ 15سال میں قرضے کی حد جی ڈی پی کے 50فیصد تک لانے کا عزم رکھتی ہے۔ اندرون ملک لیا گیا قرضہ 13399 ارب سے زیادہ ہے۔
رواں مالی سال میں قرضوں کی واپسی پر 10.33 کھرب روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ 1.24 کھرب روپے تو صرف ملکی قرضوں پر سود کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں۔ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی پر 443.80 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔ حکومت کی کل آمدنی کا 46فیصد قرضوں کی واپسی پر خرچ ہو رہا ہے‘ بقایا 54فیصد آمدنی سے حکومت پاکستان چل رہی ہے۔ 6.6 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف قرضے نے ہمارے ادائیگیوں کے توازن کو سنبھالا دیا تھا۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 8.2 فیصد سے تین سال میں کم ہوکر 5.3فیصد ہوگیا ہے۔
حکومت کو درپیش سیاسی چیلنج سے زیادہ مالیاتی خسارے‘ قرضوں کی بلند پرواز اور سرمایہ کاروں کے اعتماد بحال کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو 10فیصد ہے جو سب سے کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس ٹھیک ہو جائے تو بہت سارے مسائل خودبخود حل ہو جائینگے۔ اسی طرح ٹیکس مشینری مستعد اور ایماندار ہو جائے تو پھر حکومت کو ادھار کی لت سے نجات مل جائے گی۔