اک بہادر آدمی اور جوڈیشل مارشل لاء

حمزہ شہباز نے کہا ہے ’’میرے لئے فخر کی بات ہے کہ میں ایک مزدور کا بیٹا ہوں‘ غالباً وہ کہنا چاہتے تھے کہ میں مزدور کا پوتا ہوں۔ سنا ہے کہ بڑے میاں صاحب میاں محمدشریف حمزہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ حمزہ نے انہیں یاد کیا ہے اور ان کے انکسار کو وقار کی صورت میں بیان کیا ہے تو یہ بھی اچھی بات ہے۔ نوازشریف اور شہباز کو جو عروج ملا ہے اس کے لئے بھی ان کے دل میں دین ودنیا کی یکجائی اور یکتائی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
اصل میں وہ مزدور تھے۔ بہت سے لوگ ابھی موجود ہیں جنہوں نے بڑے میاں صاحب کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ دونوں بھائی بھی اپنے والد محترم کی شفقت اور تربیت کو یاد کرتے ہیں۔ ’’شریفانہ سیاست‘‘ کو بھی فروغ دینے میں ان کی بڑی کنٹری بیوشن ہے۔
جلاوطنی کے دوران انہوں نے جس دل سے اپنے والد کے جنارے کو پاکستان بھیجا وہ بھی ہمیں یاد ہے۔ اس میں یہ بات بھی چل نکلی کے دیار حجاز میں دفن ہونا لوگ اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں اور شریف برادران نے انہیں اپنے وطن پاکستان بھیج دیا۔ اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ میں خود پاکستان کو خطۂ عشق محمد سمجھتا ہوں اور وطن کی محبت کو دین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ لوگ دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا۔ اسلام کی نشاط ثانیہ کی بات بھی یہیں سے چلے گی۔ ہمیں رسولؐ محبوب ومحترم کے فرمان میں غزوۂ ہند کی بات بھی معلوم ہوتی ہے۔
میرے بابا جی نے فرمایا کہ غزوۂ ہند میں بھی فتح مکہ کی طرح بغیر لڑے‘ بغیر قطرۂ خوں بہائے فتح ونصرت ملے گی۔ آخر ہم نے پاکستان بھی تو بغیر لڑے ہوئے حاصل کرلیا تھا۔ ہم نے فتح حاصل کی تھی تو یہ آخری فتح بھی ہمیں نصیب ہوگی۔
ہم خوش نصیب ہیں کہ پاکستان ہمارا وطن ہے‘ اس وقت بھی پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کا لیڈر پاکستان ہے۔ پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمان امید بھری نظروں سے جس خطۂ پاک کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ پاکستان ہی ہے۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘
روایت ہے کہ جب رسول کریم حضرت محمدؐ نے غزوۂ ہند میں شریک ہونے والے لوگوں کی اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی تو ایک صحافی نے عرض کی کہ کاش ہم بھی اس غزوہ میں شریک ہو سکتے۔ غزوہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں بنفس نفیس حضور کریمؐ خود شرکت فرماتے رہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کو برصغیر میں اسی کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
برادرم جاوید ہاشمی نے برملا کہا ہے کہ عمران خان کہتے رہے کہ اب سپریم کورٹ کی حکومت ہوگی۔ آگے چل کر ہاشمی صاحب نے جوڈیشل مارشل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ پتہ نہیں چلتا کہ جاوید ہاشمی نے یہ بات عمران خان کے حق میں کہی ہے یا ان کے خلاف کہی ہے مگر آگے چل کر ہاشمی صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان کا مستقبل تاریک ہے۔ کوئی پوچھے کہ ہاشمی صاحب آپ کا مستقبل کتنا روشن ہے؟
جاوید ہاشمی کا ماضی بڑا روشن ہے‘ جاوید ہاشمی پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر تھے‘ وہ لڑکوں میں بہت پاپولر تھے۔ ہم خوبصورت جاوید ہاشمی کے سپورٹر تھے جبکہ جمعیت ہمیشہ میری مخالف رہی۔ اسی مخالفت میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کا الیکشن میں ہار گیا تھا۔
مجھے یاد ہے برادرم مجیب الرحمان شامی کے دفتر میں ایک نعرہ بنایا گیا تھا جو پوری یونیورسٹی میں خوشبو کی طرح بکھر گیا تھا۔ ’’ایک بہادر آدمی‘ ہاشمی ہاشمی‘‘ وہ کئی بار ممبر قومی اسمبلی بنا‘ الیکشن ہار بھی گیا مگر یہ نعرہ شاید کبھی نہ لگایا گیا‘ سننے میں نہ آیا تھا۔ ایک بہادر آدمی‘ ہاشمی ہاشمی۔
جاوید ہاشمی جیسے آدمی کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ بہادر آدمی دل کی گواہی میں چلتے ہیں‘ وہ دماغ کو اتنی تکلیف نہیں دیتے۔ بڑے دل والے آدمی نے کئی فیصلے غلط بھی کیے ہیں‘ اپنے اور اپنے دوستوں کے درمیان فاصلے بڑھانے کی بھی کوشش کی ہے۔
میں نے ہاشمی کو مشورہ دیا تھا کہ مسلم لیگ(ن) نہ چھوڑو‘ پارٹی میں رہ کر مقابلہ کرو۔ دوسروں کا بہت مقابلہ کرنے والے آدمی اپنا مقابلہ نہیں کرتے۔ جب تحریک انصاف ہاشمی صاحب نے جوائن کرلی تو میں نے کہا کہ اب تحریک انصاف نہ چھوڑنا‘ لیکن یہ بے انصافی بھی ہاشمی صاحب نے اپنے ساتھ کرلی۔ کچھ شاہ محمود قریشی کی ’’سیاست‘‘ نے کام دکھا دیا۔ اب وہ قریشی صاحب عمران خان کے بعد نمبر دو ہیں اور نمبر2 کام کرنے سے کبھی باز نہیں آئے۔
اب یہ بات بہت لوگ کرتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی نے جاوید ہاشمی کو شکست دے دی ہے جبکہ عمران خان قریشی صاحب سے کہیں زیادہ ہاشمی صاحب کی عزت کرتے تھے۔ قریشی صاحب اگر نیک نیت تھے تو یہ نعرہ نہ لگواتے۔ ’’ایک بزدل آدمی…ہاشمی ہاشمی‘‘

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...