حسب روایت ، آزاد کشمیر اور پاکستان سمیت دُنیا کے کئی ملکوں میں کشمیر ی عوام کی جدوجہد آزادی کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت کے عزم کا اعادہ اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ، عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے ، 5 فروری کو یوم یکجہتٔی کشمیر منایا گیا ۔ مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں بھی کُل جماعتی حُریت کانفرنس کے چیئرمین سیّد علی گیلانی، مِیر واعظ عُمر فاروق، یاسین ملک اور جدوجہد آزادی کے دوسرے راہنمائوں نے بھی اپنے پیغامات کے ذریعے پاک فوج ، حکومتِ پاکستان اور عوام سے بھی اظہار یکجہتی کِیا۔ 5 فروری کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ اور معصوم کشمیر یوں پر بھارتی فوج کے مظالم جاری رہے لیکن ساری ریاست میں بھارت کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔ پاکستان کے مختلف نیوز چینلوں پر بار بار بھارتی فوج کے ظلم و تشدد کے مظالم دکھا کر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرنے والے پاکستانیوں کے حوصلے بلند کئے جاتے رہے۔
آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف شہریوں میں جلوسوں اور ریلیوں کی قیادت کرتے ہُوئے مختلف اُلخیال سیاسی اور مذہبی قائدِین نے اپنی تقریروںمیں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو خراجِ عقیدت پیش کِیا اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل بلکہ پوری عالمی برادری کو شرمندہ کرنے کی کوشش بھی کی کہ اُس نے مقبوضہ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی سے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں؟۔ کئی مقررین نے تو اِس طرح کی تقریریں بھی کِیں کہ ’’ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے والے میاں نواز شریف خود بھی کشمیری ہیں اور وفاق اور پنجاب میں بھی کئی وزراء ، معاونِینِ خصوصی اور مُشیران بھی کشمیری ہیں ، اِس کے باوجود کشمیری عوام کو آزادی کیوں نہیںمِل رہی ؟ ۔
’’وزیر خارجہ کی عدم موجودگی ؟‘‘
کئی مقررین نے تو مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ بیان کی کہ ’’ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے تیسرے دَور میں بھی اپنے کسی وفادار ساتھی یا کشمیری کو وزیر خارجہ کیوں نہیں مقرر کِیا؟ لیکن یہ دلیل معقول نہیں ہے ۔ وزیر خارجہ کا کشمیری یا غیر کشمیری ہونا ضروری نہیں ہے ۔ میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں کشمیری جناب سرتاج عزیز باقاعدہ اور "Full Fledged" وزیر خارجہ رہے لیکن اِس کے باوجود وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سلامتی کونسل اور خاص طور پر بھارت پر دبائو نہیں ڈال سکے۔ تیسرے دَور میں وزارتِ خارجہ کا چارج جنابِ وزیراعظم کے پاس ہے ۔یعنی اب "Ball"" اُن کے "Court" میں ہے‘‘۔
شری مودی سے ذاتی دوستی؟
میاں نواز شریف نے 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے فوراً بعد کہا تھا کہ ’’پاکستان کے عوام نے مسلم لیگ ن کو بھارت سے تجارت اور دوستی کے لئے ووٹ دئیے ہیں ‘‘۔ اپنے اِس بیان کو دُرست ثابت کرنے کے لئے جنابِ وزیراعظم مئی 2014ء میں بھارت کے منتخب وزیراعظم شری نریندر مودی کی وزارتِ عظمیٰ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لئے دہلی تشریف لے گئے تھے ۔ وزیراعظم مودی نے ہمارے وزیراعظم سے "One On One" ملاقات میں انہیں "Man Of Peace" ( مردِ امن) کا خطاب دِیا تھا اور اُن کی والدۂ محترمہ کے لئے شال کا تحفہ بھی بھجوایا تھا جواباً وزیراعظم پاکستان نے بھی مودی جی کی ماتا جی کے لئے سفید ساڑھی کا تحفہ بھجوایا۔
مودی جی کی دوستی کا ہاتھ ؟
25 دسمبر 2015ء کو وزیراعظم نواز شریف کی سالگرہ اور اُن کی نواسی ( مریم نواز کی بیٹی ) مہر اُلنساء کی رسمِ حنا تھی جب مودی جی اپنے قابلِ اعتماد ساتھیوں کو لے کر جاتی اُمرا تشریف لائے اور ہمارے وزیراعظم کی والدۂ محترمہ سے اشیر باد لے کر دِلّی واپس پہنچ گئے تھے لیکن مودی جی کی دوستی کا ہاتھ ۔ مقبوضہ کشمیر میں بے گُناہ کشمیریوں پر ظلم کرنے والی بھارتی فوج کے ہاتھ نہیں روک سکا۔اب اِس میں ہمارے کشمیری وزیراعظم کا کیا قصور؟۔ مودی جی ہمارے وزیراعظم کے اچھے دوست ثابت نہ ہُوئے تو عالمی سطح پر تو اُن کی ہی بدنامی ہُوئی ؟ ۔
مولانا فضل اُلرحمن کا ذِمّہ دوش پوش
5 فروری کو ہی یومِ یکجہتٔی کشمیر کے موقع پر ساڑھے آٹھ سال سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل اُلرحمن نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو اپنے طویل انٹرویو میں واضح کردِیا کہ ’’ کشمیر پر پالیسی بنانے میں ’’ میری کشمیر کمیٹی کا کوئی کردار نہیں ہے ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ۔ ’’ صاحبِ کردار ‘‘ مشہور ہونے کے باوجود مسئلہ کشمیر کے حل کرنے یا کرانے کے سِلسلے میں مولانا فضل اُلرحمن اِس کے علاوہ اور کیا کر / کہہ سکتے ہیں؟۔ اب تو ایک ہی طریقہ ہے کہ مولانا صاحب سرکاری خرچ پر بار بار عُمرے کی ادائیگی کے لئے تشریف لے جائیں اور مکّہ معظمہ اورمدینہ منّورہ میں اللہ تعالیٰ اور سرکارِ دو عالم ؐکے حضور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے گِڑ گڑا کر دُعائیں مانگیںکہ ’’ یا اللہ! صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شری مودی کے دِلوں کو نرم کردے!‘‘۔
کشمیری خادمِ اعلیٰ پنجاب؟
گزشتہ سال (5 فروری کو) کشمیری خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کشمیر یوں سے اظہار یکجہتی کے لئے انوکھا انداز اپنایا تھا۔ اگلے روز ’’ امن کی آشا‘‘ کے علمبردار اخبار میں شائع ہونے والی خبر اور تصویر کا "Caption" تھا کہ ’’وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف ( کشمیری ثقافت کے تہوار کے طور پر )کشمیری لباس میں ملبوس اپنی پوتِیوں کے ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں ‘‘۔ اِس پر 7 فروری 2016ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ خادمِ اعلیٰ پنجاب بازی لے گئے‘‘۔ اِمسال خادمِ اعلیٰ پنجاب نے اپنی پوتیوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر کیسے منایا؟۔ اُن کے میڈیا منیجر شعیب بن عزیز بھی نہیں جانتے؟ ۔
یکجہتٔی کشمیر پر غیر شاعرانہ نغمہ؟
انٹر سروسز پبلک ریلشنز ( آئی ایس پی آر) پاکستان کی قابلِ فخر فوج کا باوقار ادارہ ہے لیکن شاعری کے معاملے میں "Non Technical" ۔ یوم یکجہتٔی کشمیر پر تقریباً تمام نیوز چینلوں پر اِس باوقار ادارے کا جاری کردہ "Song" (نغمہ، گیت مقفّیٰ نظم) بار بار گایا اور سُنوایا گیا۔ گلوکاری اور دُھن اچھی تھی لیکن یہ "Song" کسی شاعر نے نہیں بلکہ ’’مُتشاعر‘‘ نے لِکھا ہے ۔ گھرؔ اور کشمیرؔ ہم قافیہ الفاظ نہیں ہیں لیکن گلوکار نے بار بار گایا کہ …؎
’’میری جنّت ، میرے گھرؔ سے نکل جا
انڈیا، جا، جا ، کشمیر ؔسے نِکل جا‘‘
شعریوں ہونا چاہیے تھا…؎
’’ میری جنّت ، میری تقدیر ؔسے نکل جا
انڈیا، جا ، جا، کشمیر ؔسے نکل جا‘‘
تقدیرؔ کے بجائے لفظ جاگیر ؔ بھی ہوسکتا ہے۔ صُورت یہ ہے کہ جب تک یہ"Song" گایا جاتا رہے گا۔ آئی ایس پی آر کے اُس آفیسر کی بدنامی ہوتی رہے گی جِس نے اِس "Song" کی منظوری دی ہے ۔ اگر ہمارے دشمن ملک بھارت کے شاعروں نے اِس خامی کو ڈھونڈ لِیا تو ؟۔
ایک مِنٹ کی خاموشی؟
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ’’ وزارتِ داخلہ کی حماقت سے یوم یکجہتٔی کشمیر کو شُہدائے کشمیر کو رُوحوں کی یاد میں دُعائے مغفرت کے بجائے عیسائیوں اور ہندوئوں کی رسم کے مطابق ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم نریندر مودی سے اظہار یکجہتی کے لئے ایک منٹ کی خاموشی کی بدّعت شروع کی گئی ہے ۔ ہندو اِسے ’’ مون برت‘‘ ( چُپ کا روزہ) کہتے ہیں ۔ جب پاکستان کی ہر حکومت نے کئی سال سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ’’ چُپ کا روزہ‘‘ رکھا ہُوا ہے تو وہ سال میں صِرف ایک دِن اور ایک مِنٹ کے لئے کیوں؟
یکجہتی کشمیر ‘ غیر شاعرانہ نغمہ‘ ایک منٹ خاموشی؟
Feb 07, 2017