نواز رضا
پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف ان دنوں سروسز ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کواس وقت منسٹرز انکلیو میں اپنی رہائش گاہ میں رکھا گیا ہے ، سروسز ہسپتال کی وارڈ اور میاں شہباز شریف کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دیا گیا، یہ وہ ’’سہولیات‘‘ ہیں جو انھیں عدالتی احکامات پر فراہم کی گئی ہیں۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو طبی سہولیات کی فراہمی ان کا بنیادی حق ہے، لیکن جب سے ’’جبر‘‘ کے ماحول میں انہیں یہ سہولیات دی گئی ہیں تو حکومتی حلقوں کی جانب سے اسے ’’ڈیل‘‘ کی بجائے ’’ڈھیل‘‘ قرار دینے کی پراپیگنڈہ مہم شروع کر دی گئی ہے تا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملنے والی اس طرح کی ’’سہولیات‘‘ کو حکومت کی طرف سے ’’ڈھیل‘‘ قرار دے کر اس تاثر کو تقویت دی جائے کہ انھیں عدلیہ کی جانب سے جو کچھ بھی مل رہا ہے وہ موجودہ حکومت کی ’’مہربانی‘‘ کا نتیجہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے لے کر تحریک انصاف کا ادنیٰ کارکن بھی ’’این آر او‘‘ نہ دینے کا ذکر کچھ اس تکرار سے کر رہا ہے جیسے نواز شریف اور شہباز شریف اس سب کا ان سے تقاضا کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اورشہبازشریف بارہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ جو لوگ این آر او نہ دینے کی بات کر رہے ہیں وہ بتائیں کہ ان سے کس نے این آر او مانگا ہے؟ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی جانب سے بھی معنی خیز انداز میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے پاس این آر او دینے کا کوئی اختیار نہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لہذا این آر او کے مفروضے کو مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کے خلاف استعمال کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، اس کا مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی بھرپور انداز میں جواب دیا جا رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف جو پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال کے دوران دوسری بار جیل میں ہیں، کی سیاسی کتاب میں ’’کمپرومائز‘‘ نام کا کوئی لفظ نہیں۔ ان کے ’’غیر لچکدار‘‘ طرز عمل نے انھیں بار بار جیل کا راستہ دکھایا ہے۔ انھوں نے کبھی اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہیں کیا، اگر وہ سر جھکا کر’’ ہاں‘‘ میں’’ ہاں‘‘ ملانے کی سیاست کرتے تو انہیں طویل عرصہ تک اقتدار کے ایوانوں سے کوئی نہیں نکال سکتا تھا، انہوں نے میدانِ سیاست میں اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے سیاستدان کے طور پر شہرت پائی ہے۔ وہ جو فیصلہ کر لیں اسے حقیقت کا روپ دھار کر ہی چھوڑتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اپنی چار عشروں پر محیط سیاست میں پر عزم ہونے کی وجہ سے ہی پاکستان کی تاریخ میں تیسری بار وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ اسے قومی سیاست کی بد قسمتی کہیں کہ عوام کے ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کو تینوں بار غیر جمہوری طریقے سے مسندِ اقتدار سے الگ کیا گیا ہے۔ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کی سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے جس میں انھوں نے جہاں عوام کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ دیا وہاں جرات و استقامت سے جبر کے ماحول میں زندہ رہنا سکھایا۔ آج یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی، جو دو متحارب جماعتیں تھیِں، جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہیں۔ اگرچہ دونوں جماعتوں کی قیادت کو دبائو میں لانے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن اس وقت ملکی سیاست میں نواز شریف اور آصف علی زرداری اس حد تک قریب ہو گئے ہیں کہ وہ جب چاہیں، پارلیمنٹ میں اپنی مرضی کی حکومت نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ وہ ملکی سیاست کی ہوا کا رخ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان کوئی براہ راست ملاقات تو نہیںہوئی مگر دونوں کے درمیان بالواسطہ رابطوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا’’ گرینڈ الائنس‘‘ موجود ہے جو موسم کی تبدیلی اور بہار کی آمد آمد کا منتظر ہے۔ آنے والے دنوں میں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی، حاصل بزنجو، اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کا ملکی سیاست کا رخ تبدیل کرنے میں میں کلیدی کردار ہو گا۔ لہذا اپوزیشن کے سیاسی اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کے لئے کبھی این آر او، کبھی ڈیل اور کبھی ڈھیل کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ اے دو وزراء کے پاس ’’این آر او اور ڈیل اور ڈھیل ‘‘ بیچنے کے سوا کچھ نہیں ۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کے طویل وعرض میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کو عدالت سے ملنے والی سہولیات کو ’’ڈیل اور ڈھیل‘‘ کا رنگ دینے پر مسلم لیگی قیادت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ زمینی حقائق اس کی نفی کررہے ہیں ایسے اشارات مل رہے ہیں کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کوا بھی ’’آگ‘‘ کے مزید دریا عبور کرنا ہیں۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سیاست سے باہر نکالنے کا جو ’’ماسٹر پلان‘‘ ہے، وہ تاحال تمام تر کوششوں کے باوجود رُو بہ عمل نہیں ہو سکا، میاں نواز شریف اور مریم نواز کو پاکستان کی سیاست سے دو رکھنے کے لئے انھیں مختلف پیش کشیں کی گئی ہیں، لیکن میاں نواز شریف جیل میں مزید عرصہ تو گزار لیں گے لیکن وہ اپنے اصولی موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ میاں نواز شریف کو ملکی سیاست سے نکالنا ممکن نہیں۔ ممکن ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست سے وقتی طور پر باہر ہوں لیکن ان کی جماعت مسلم لیگ ن کے انتخابی نشان ’’شیر‘‘ کی قوت لوگوں کو پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے بھجواتی رہے گی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ڈیل نہیں کی اور’’ فیصلہ کن قوتوں ‘‘ کے ساتھ الجھتے الجھتے جیل پہنچ گئے ، انھوں نے اپنے دیرینہ دوست سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے ’’مشوروں‘‘ کو قابل درخوراعتنا نہ سمجھا ۔ عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی نہ کرنے کا مشورہ قبول نہ کرنے سے نوازشریف اور چوہدری نثار علی خان کے راستے الگ ہوگئے۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک علاج جانے کی افواہ گردش کر رہی ہے۔ نواز شریف کے میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر محمود ایاز نے کہا ہے کہ نواز شریف کو بلڈ پریشر، شوگر، گردوں اور خون کی شریانوں کا مسئلہ ہے اور ان کا علاج پاکستان میں ممکن ہے۔ نواز شریف کے خون، ہارمون اور دل، ٹانگوں، آنکھوں اور دماغ کے خون کی شریانوں کے ٹیسٹکے بعد انکی ادویات میں معمولی ردوبدل کیا گیا ہے ۔ نواز شریف کے عارضہ قلب کے لئے خصوصی معائنے کی سفارش کی ہے اور ان کو ہسپتال سے شفٹ کرنے کا حتمی فیصلہ محکمہ داخلہ کرے گا۔تاہم انہوں نے طریقہ کار کے تحت کسی بھی مریض کے ٹیسٹ کی رپورٹ بتا نے سے انکار کر دیا۔