اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی صدارت میں نو تشکیل شدہ قومی مالیاتی کمشن کے پہلے اجلاس میں فاٹا‘ کاروبار کی آسانی‘ میکرو اکنامک ایشوز‘ وفاقی اور صوبوں کے شیئر اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا فارمولہ طے کرنے کے لئے 6 ورکنگ گروپس تشکیل دیئے گئے۔ اجلاس میں ممبران نے زور دیا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان ڈیٹا کو مکمل طور پر شیئر کیا جائے۔ شرکاءنے اس بات پر اتفاق کیا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان جو بھی مالی شیئر مقرر ہو اس سے 18 ویں ترمیم کی حقیقی روح ظاہر ہونا چاہئے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ فاٹا‘ گلگت و بلتستان سی پیک سیکورٹی کے لئے صوبوں کے شیئر میں کمی کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کے درمیان نقطہ نظر میں اختلاف رائے پایا گیا۔ صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے لئے مختلف امور کو ”ویٹج“ دینے پر بھی اختلاف ہے اس وقت آبادی کو سب سے زیادہ وزن دیا جا تا ہے۔ سندھ ”ریونیو“ کو بھی وزن دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز اجلاس وزیر خزانہ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ حکومت 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ ارکان کے درمیان عمومی بات چیت کی گئی جس میں ان ایشوز کی نشاندہی کی گئی جو این ایف سی میں طے ہونا ہے۔ اس سلسلے میں ایشوز کی نشاندہی کے بعد 6 ورکنگ گروپس بنا دیئے گئے جو ایشوز پر اپنی سفارشات مرتب کرےں گے۔ این ایف سی کا اجلاس ہر 6 ہفتے کے بعد ہو گا۔ این ایف سی سیکرٹریٹ کو ہدایت کی گئی کہ مختلف امور پر رابطہ کو م¶ثر بنایا جائے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ تمام صوبوں کے درمیان اتفاق ہے کہ وہ کیا ایشوز ہیں جن کو ایوارڈ کے اندر بات چیت کر کے ان پر فیصلہ کرنا چاہئے۔ ان تمام ایشوز کی فہرست مکمل کر لی گئی ہے۔ یہ بھی مشترکہ فیصلہ ہے کہ وفاقی اور صوبوں کو وسائل بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے اتفاق رائے سے ہونا ہیں اور این ایف سی نے مالیاتی اور سیاسی لحاظ سے بڑے فیصلے کرنا ہیں۔ سندھ نے قابل تقسیم محاصل کے پول میں صوبوں کے حصہ میں کٹوتی کی مخالفت کی۔ وزیر خزانہ پنجاب ہاشم بخت نے کہا کہ وفاق کے ساتھ دو ماہ کے واجبات کے بارے میں طے ہونا باقی ہے۔ پنجاب سے غیر سرکاری رکن سید سلمان شاہ نے کہا کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز تمام صوبوں کے پیش نظر ہونا چاہئے۔ فاٹا پورے ملک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے پی کے پسماندگی اور فاٹا علاقوں کے لئے مزید مالی وسائل کا خواہاں ہے جبکہ بلوچستان کی گیس اور معدنی وسائل کے حوالے سے مزید وسائل چاہتا ہے۔ سندھ کی طرف سے 16 نکات پیش کئے گئے جن میں اہم ترین یہ تھا کہ ”آبادی“ کے فیکٹر کو ملنے والے ”وزن“ کے تناسب میں کمی لائی جائے۔ اشیاءپر سیلز ٹیکس کی وصولی صوبوں کو دی جائے۔ جی آئی ڈی سی صوبوں کو دیا جائے اور وفاق اور صوبوں کے درمیان جو شیئر کا موجودہ تناسب ہے اس میں کوئی کمی نہ لائی جائے۔
اسلام آباد (عترت جعفری) این ایف سی کے اجلاس میں نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق مالی وسائل کی تقسیم کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ واضح رہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج میں پنجاب اور سندھ کی آبادی کم اور کے پی کے اور بلوچستان کی آبادی بڑھی ہے۔ فاٹا کے مدغم ہونے کے بعد کے پی کے مالی مسائل میں بڑا حصہ دار بن سکتا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ صوبے اس بات پر مصر رہے کہ فاٹا کی ترقی کے لئے وفاقی حکومت خود مالی وسائل دے اور صوبوں کی مالی حالت کے پیش نظر وہ کٹوتی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اجلاس کے بعد میڈیا کے سامنے اپنا م¶قف بیان کیا اور کہا کہ ہم نے اجلاس میں اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے حقوق پر عملدرآمد پر زور دیا۔ صوبوں کو گزشتہ سال کے مقابلہ میں کم پیسہ ملا ہے۔ مردم شماری کے نتائج کی مشترکہ مفادات کی کونسل سے منظوری لی جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب نے وفاق سے بقایا جات کی مد میں 70 ارب روپے ادا کرنے کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں صوبوں نے وفاقی محاصل کی کمی پر تشویش ظاہر کی۔
صوبے/مظالبہ