لاہور(وقائع نگار خصوصی) خواتین ججز عدلیہ کا اہم حصہ ہیں، محنت، لگن اور ایمانداری سے فراہمی انصاف کیلئے اپنا فعال کردار ادا کریں۔چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان کا کہنا ہے کہ مْعاشرے میں خواتین کے ہمہ جہتی کردار کی وجہ سے مذہب اسلام میں ان کے حقوق بہت نمایاں ہیں۔ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں مگر یہاں خواتین کے حقوق کی پامالی عام ہے۔ خواتین اپنی صلاحیتوں میں کسی طور پر مردوں سے کم نہیں ہیں مگر پھر بھی 3اْنہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہمارے معاشرے میں تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ان خیالات کا اظہار پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں خواتین جوڈیشل آفیسرز کی کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس مامون رشید شیخ، رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ چودھری ہمایوں امتیاز، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری اشتر عباس اور ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی نذیر احمد گجانہ بھی موجود تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین کو در پیش مشکلات سے کون واقف نہیں ہے۔ مگر یہ امر قابل تحسین ہے کہ ہماری خواتین ججز ان تمام چیلنجز سے احسن طریقے سے سامنا کرکے آج معاشرے میں اپنا ایک نمایاں مقام پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ انہوں نے خواتین ججز سے کہا کہ بطور خاتون جج، کمرہ عدالت میں آپ کی موجودگی ، معاشرے کے لیے پیغام ہے کہ آپ میں معاشرتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس حوالے سے آپ کا اندازِ کلام اور آپ کے کام کرنے کا طریقہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے بہت سے پیغام رکھتا ہے۔ لہٰذا آپ کی موجودگی بیک وقت متانت، شفقت اور علمیت کا مجموعہ ہونی چاہیے۔ بطور جج فیصلے کرتے ہوئے آپ کے پیش نظر کوئی صنفی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے خواتین ججز سے مزید کہا کہ آپ کے فیصلے کسی ڈر، خوف یا دباؤ کے زیر اثر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ آپ کے فیصلے معاشرے کے کمزور ، تہی دست اور مظلوم طبقات کی آواز ہونے چاہئیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ خواتین ججز مشکل ترین حالات میں کام کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات آپ کی مجموعی کارکردگی، مقدمات کے فیصلوں کی تعداد کے حوالے سے آپ کے ساتھی مرد ججز سے کچھ کم رہ جاتی ہے۔ اس وقت پنجاب بھر کی ضلعی عدالتوں میں 1779ججز تعینات ہیں۔جن میں سے کل خواتین ججز 273 ہیں۔ خواتین ججز کا مرد ججز کے مقابلہ میں تناسب 15.34 فی صد ہے۔فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ خواتین ججز کے مسائل چاہے وہ ر ہائش گاہوں کے ہوں یا عدالتوں کی کمی کے حوالے سے ہوں، سٹاف کی عدم دستیابی ہو یا واش رومز اور کامن رومز نہ ہونے کے حوالے سے ہوں، لاہور ہائی کورٹ بطور ادارہ خواتین ججز کے ہر مسئلے سے بخوبی آگاہ ہے اور ان تمام تر شکایات کے ازالے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ خواتین ججز کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے حوالے سے بھی متوازن پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ معمول کے عدالتی امور سے ہٹ کر جب بھی خواتین ججز کو ADR جیسے مشکل کام کے لیے چْنا گیا یا شام کی عدالت کے لیے بطور پریذائڈنگ آفیسر منتخب کیا گیا تو نتائج بہترین رہے ہیں۔ مگر جب آپ کی مجموعی کارکردگی کا تقابل آپ کے ساتھی مرد ججز کی کارکردگی سے کیا جاتا ہے تو آپ کی کارکردگی کچھ کم نظر آتی ہے۔ بلا شبہ آپ مقابلے کا امتحان پاس کر کے اور اعلیٰ تدریسی ریکارڈ کے ساتھ اس مقام پر پہنچی ہیں۔ آپ کا یہ مقام حتمی منزل نہیں بلکہ صرف نشان منزل ہے۔ آپ نے اپنی محنت لگن اور ایمانداری سے وہ مقام حاصل کرنا ہے جس کیلئے آپ اس عدلیہ کا حصہ بنی ہیں۔خواتین ججز کے مسائل کے حل کے لیے ہائی کورٹ کی سطح پر قائم خواتین ججز ویلفیئر کمیٹی کو جسٹس عائشہ ملک کی سربراہی میں دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں آپ کے مسائل اور شکایات کو ہائی کورٹ تک آسان رسائی دینے کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج شاہدہ سعید کو فوکل پرسن تعینات کیا جا رہا ہے۔ جو آپ کے اور ہائی کورٹ کے درمیان نہ صرف معاونت اور رابطے کا ذریعہ ہوں گی بلکہ آپکے مقدمات کی مانیٹرنگ بھی کریں گی۔مقدمات کے جلد اور زیادہ تعداد میں فیصلہ جات کی بناء پر آپ کو بیرون ملک کانفرنسز یا تربیتی کورسز پر بھجوانے کے لیے متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا رہا ہے۔آپ کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ اگر ایک طرف ہائی کورٹ بطور ادارہ آپ کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے مصروف عمل ہے تو دوسری طرف آپ پر بھی لازم ہے کہ آپ اپنی کارکردگی میں نمایاں بہتری لائیں اور اپنے بعد آنے والی خواتین ججز کے لیے عْمدہ کارکردگی کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔