حمزہ شہباز کی ضمانت منظور، تحقیقات کے معیار پر نیب کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینا چاہئے: ہائیکورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ نے رمضان شوگر ملز ریفرنس کیس میں حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔ جبکہ آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس کی سماعت 11فروری تک ملتوی کردی۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے نیب کے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ جب عدالت میں ریفرنس فائل ہو گیا تو پھر ضمنی ریفرنس کیوں دائر کیا گیا۔ جس پر نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات میں جب بھی کوئی نئی چیز سامنے آتی ہے اس پر ضمنی ریفرنس دائر کیا جاتا ہے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر سے دریافت کیا کہ آپ وہ قانون بتا دیں کہ جس کی رو سے ریفرنس فائل ہونے کے بعد ضمنی ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے۔ اگر نیب کے تفتیشی افسر 90 دن میں کوئی چیز فائنل نہیں کر سکتے تو کیا وہ وہاں بیٹھ کر کیرم بورڈ کھیلتے ہیں۔ حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز نے موقف اختیار کیا کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری بدنیتی پر مبنی ہے، ابھی تک نیب نے جو دستاویزی ثبوت حاصل کیے ان میں بھی کہیں حمزہ شہباز کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ رمضان شوگر ملز میں 7 ڈائریکٹرز تھے جن میں سے ایک حمزہ شہباز تھے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ سے جو بات پوچھی جائے اس کا آپ کے پاس جواب نہیں ہوتا، آپ قوم کا وقت اور پیسہ کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ عدالت نے نیب کے وکیل سے پوچھا کہ جو نالے بنائے گئے کیا وہ صرف اس رمضان شوگر ملز کو فائدہ پہنچانے کے لئے تھے۔ آپ اختیارات کو ناجائز استعمال کرنے کے شواہد لے کر آئیں۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ جس تفتیشی افسر نے کیس کی تحقیقات کی تھیں وہ اپنے امتحانات کی وجہ سے چھٹی پر ہیں۔ جسٹس سید مظاہر علی اکبرنقوی نے ریمارکس دئیے کہ جو آپ لوگوں کی تحقیقات کا معیار ہے اس پر آپ سب کو پرائیڈ آف پرفارمنس دینا چاہیے۔ آپ کا زیادہ سے زیادہ کیس یہ ہے کہ اختیارات کے استعمال میں ڈنڈی ماری گئی ہے۔ آپ یہ بتا دیں کہ اختیارات میں شہباز شریف طاقتور تھے کہ حمزہ شہباز شریف؟۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے صرف اپنے خدا کو جان دینی ہے اور جو فیصلہ کرنا ہے وہ حق پر کرنا ہے۔ حمزہ شہباز کی ایک کیس میں درخواست ضمانت منظور ہونے پر کارکنوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قیادت کے حق میں نعرے لگائے۔

ای پیپر دی نیشن