آج کا انسان خود کو تعلیم یافتہ سمجھتا ہے اور بھاگ بھاگ کے تھک چکا ہے۔اسکے پاس ڈگریوں کے پلندے ہیں ۔بڑے گھر ہیں بڑے کاروبار ہیں بڑی گاڑیاں ہیں اور زندگی کی ہر آسائش اسے میسر ہے لیکن یہ انسان ہر وقت دل کی بے سکونی کا رونا روتا ہے ۔وہ روتا ہے کہ اسے اچھے دوست میسر نہیں ہیں وہ چلاتا ہے کہ اسکے گھر والے اسکے رشتہ دار اس سے صرف پیسے کیلئے محبت کرتے ہیں ۔اس کا رویہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ باہر سے سب خوش نظر آنے والا وہ بندہ اندر سے کتنا خالی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیاوی طور پر کامیاب تو ہوتا ہے لیکن چونکہ وہ ہر کام دنیا کو خوش کرنے کیلئے کرتا ہے اس لیے رب کا کرم اسکے شامل حال نہیں ہوا کرتا۔وہ خیرات کرتا ہے تو دکھاوے کیلئے ,وہ غریب کی بیٹی کی مدد کرتا ہے تو کیمروں کے سامنے,وہ نماز پڑھتا ہے لیکن مسجد سے باہر نکل کے ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ناپ تول میں کمی کرتا ہے ۔ جب وہ ایسا کرتا ہے تو پھر وہ کرم یافتہ کیسے ہوسکتا ہے ۔واصف علی واصف ایک جگہ کرم یافتہ لوگوں کے بارے کچھ یوں لکھتے ہیں کہ ’’ جہاں تک میرا مشاھدہ ہے کہ میں نے جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر رب کا کرم تھا۔اُسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دیگا۔ بہت زیادہ غصّہ نہیں کریگا۔ سادہ بات کریگا۔میں نے کرم ہوئے شخص کومخلص دیکھا۔ اخلاص سے بھرا ہوا غلطی کو مان جاتا ہے معذرت کر لیتا ہے۔سرنڈر کر دیتا ہے جس پر بھی کرم ہوا ہے میں نے اُسے دوسروں کیلئے فائدہ مند دیکھا۔ اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپکی ذات سے کسی کو نفع ہو رہا ہو اور اللہ آپ کیلئے کشادگی کو روک دے۔ وہ اور زیادہ کرم کریگا۔میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے۔ اُس کا درجن 13 کا ہوتا ھے، 12 کا نہیں۔ اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کیلئے آپ بھی درجن 13 کا کرو اپنی زندگی میں اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔نہیں تو کیا ہو گا؟حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا. دِل کے کنجُوس کیلئے کائنات بھی کنجوس ہو جاتی ہے۔ دل کے سخی کیلئے کائنات خزانہ ہے۔جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا جس پر ربّ کا کرم تھا، اُسے عاجز پایا۔ پوری عقل کے باوجود بس سیدھا سا بندہ۔ بہت تیزی نہیں دکھائے گا۔ اُلجھائے گا نہیں۔ رستہ دے دیگا۔ بہت زیادہ غصّہ نہیں کریگا۔ سادہ بات کریگا۔ میں نے ہر کرم ہوئے شخص کو مخلص دیکھا غلطی کو مان جاتا ہے۔ معذرت کر لیتا ہے۔ سرنڈر کر دیتا ہے۔آسانیاں دو، آسانیاں ملیں گی‘‘.واصف علی واصف صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جس پہ کرم ہے، اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔ وہ تو کرم پہ چل رہا ہے۔ تم چلتی مشین میں ہاتھ دو گے، اُڑ جاؤ گے۔ کرم کا فارمولا تو کوئی نہیں۔اُس کرم کی وجہ ڈھونڈو۔ جہاں تک میرا مشاہدہ ہے، جس پر کرم ہوا ہے نا، میں نے اُسے دوسروں کیلئے فائدہ مند دیکھا۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کی ذات سے نفع ہو رہا ہو، اور اللہ آپ کیلئے کشادگی کو روک دے۔ وہ اور کرم کریگا۔میں نے ہر صاحبِ کرم کو احسان کرتے دیکھا ہے۔ حق سے زیادہ دیتا ہے۔ اللہ کے کرم کے پہیے کو چلانے کیلئے آپ بھی اپنی کمٹمنٹ سے تھوڑا زیادہ احسان کر دیا کرو۔ نہیں تو کیا ہو گا؟ حساب پہ چلو گے تو حساب ہی چلے گا! دل کے کنجوس کیلئے کائنات بھی کنجوس ہے۔دل کے سخی کیلئے کائنات خزانہ ہے۔جب زندگی کے معاملات اڑ جائیں سمجھ جاؤ تم نے دوسروں کے معاملات اڑائے ہیں۔ ''آسانیاں دو آسانیاں ملیں گی''آج بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ تصوف کیا ہے؟صوفی ازم کیا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اولیا اللہ ,بزرگانِ دین یا صوفیا کے بارے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اللہ والا وہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تسبیح ہو ,کندھے پر جائے نماز ہو, کپڑے پرانے سے ہوں ,بال بڑھے ہوں لیکن حقیقت میں یہ تصوف کی پہچان نہیں ہے ۔اسلامی تصوف سے مراد صوفی وہ بندہ ہوتا ہے جو قرب الٰہی کے بعد وہ مقام پالیتا ہے جس کے بعد وہ لوگوں کیلئے آسانیاں بانٹنے کا کام شروع کردیتا ہے اسکے اندر کی روشنی اس کے اردگرد بیٹھنے والوں کے دلوں پر بھی اثر کرنے لگتی ہے ۔تزکیہ نفس کرتا ہے تو اُ سکی روح انوار الہی سے منور ہوتی ہے دنیا اور دنیا کی آسائشوں سے دور رہتا ہے ۔رب کے بندوں کو رب کے قریب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اگر آج ہم نے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر کھڑا کرنا ہے تو ہمیں ریاست مدینہ کے لوگوں جیسے اعمال بھی کرنے ہونگے ۔ہمیں ریاست مدینہ کے لوگوں کی زندگیو ںکو بڑی گہری نظر سے پڑھنا ہوگا ۔انکے شب و روز سے سیکھنا ہوگا کہ ان کی کون کون سی عادات رب کو اچھی لگیں کہ وہ کرم یافتہ قرار دئیے گئے اور ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمارے اس خطے میں جن صوفیا نے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف راغب کیا انکا طرز عمل کیا تھا۔ واصف علی واصف کے پاس وہ کیا مقناطیسی کشش تھی کہ آج میرے وطن کے لوگ ان سے محبت کے گیت گاتے ہیں ۔