نوبل انعام یافتہ کا انجام!

’اس وقت ملک کے دارالحکومت کی سڑکوں کو رکاوٹیں لگاکر بند کردیا گیا ہے۔ فوجی گاڑیوں ،ٹرکوں ،بسوں کے ذریعے ملک کے ہر شہر میں پہنچ چکے ہیں۔ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذکردی گئی ہے اورحکمراں جماعت کے تمام ممبران کو فوج نے حراست میں لے لیا ہے۔ ہر طرف افراتفری ،خوف ،ہیجان اور کشمکش کی صورت حال ہے۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اس مشکل صورت حال میں جبکہ کورونا کی دوسری لہر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور دنیا اس کی ویکسین کے لیے کوششیں کررہی ہیں ہم ایک ملٹری ڈکٹیٹرز کی چنگل میں پھنس چکے ہیں‘‘۔ اس کا کہنا تھا کہ:’’ ہم ابھی تک پانچ سال پہلے اپنے مسلمان بھائیوں پر بھکشوں اور سیکیورٹی فورسز کے مظالم کو نہیں بھول سکے ، جب دوہزار سولہ میں ہمارے میانماری مسلمان بھائیوں پر بھکشوں اور سیکیورٹی فورسز نے غیر معمولی اور انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی تھے۔ مجھے آج بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ظلم  سہنے والے اگر مسلمان نہ ہوتے تو دنیا بھر میں کہرام مچ چکا ہوتا اور اب تک میانمار کی حکومت کو انتہائی سخت بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہوتا۔میانمار ی حکومت جانتی ہے کہ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر دنیا بھر میں کہیں آواز نہیں اٹھے گی، اس لیے وہ کھل کر ظلم ڈھا تی رہی اور عالمی برادری سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں منہ چھپاتی رہیں‘‘۔’’ آنگ سانگ سوچی نے اپنے ہی ملک میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے شرمناک حد تک گریز کیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی بات آجائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آنگ سانگ سوچی کے منہ میں زبان ہے ہی نہیں۔ روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو میانمار کی ریاست اپنا شہری تسلیم نہیں کرتی اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک مطلق العنان حکمران ان مسلمانوں کو بنیادی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو ہر طرح سے ناانصافی کا سامنا ہے۔ ریاستی مشینری انہیں کچلنے کے درپے ہے۔ وہ ملک میں رہتے ہوئے بھی یوں رہتے ہیں جیسے پردیس میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ انہیں قتل و غارت کا سامنا ہے۔ نسلی تطہیر کا عمل جاری ہے۔ ریاستی مشینری انہیں ان کے اپنے گھروں سے نکال کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ بدھ بھکشو بھی ان کے خلاف ہیں اور آئے دن ان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کو چوہوں کی طرح سمندر برد کردیا گیا‘‘۔یہ کہانی سنانے والا ایک برمی بھائی کاتھا جس کا دکھ یہ تھاکہ ہم جیسے لاکھوں پاکستانی جو آج اس ملک کے مختلف شعبوں میں کامیاب زندگی گزاررہے ہیں ۔اس کا مزید کہناتھا :’’میں خود ایک غیر سرکاری ادارے میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہوں۔ ہم پاکستان کے بارے میں سنتے ہیں کہ یہاں غیر ملکی پناہ گزینوں کے ساتھ امتیازی رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ سراسر مغرب کی پالیسی کے عین مطابق ہے جس کا ایجنڈا صرف اور صرف یہ ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کو متعصب ، کم ظرف اور سنگدل قوم کے طور پیش کیا جسکے۔ مجھ جیسے ہزاروں بنگالی،برمی، میانماری پاکستان کے معزز شہری کی حیثیت سے سالوں سے رہ رہے ہیں مگر ہمارے ساتھ آج تک کسی حکومت میں سیاسی ۔ سماجی، معاشرتی دباؤ سے نہیں گزرنا پڑا۔ ہم ایک یا دو نسل سے پاکستانی ہیں مگر ہمارے دل آج بھی اپنے آباء واجداد کی زمین کی طرف پلٹتے ہیں۔ ہم لوگ چاہ کر بھی واپس نہیں جا سکتے ،لیکن میانمارکے مسلمانوں کا غم ہم اپنے رگ وپے میں محسوس کرتے ہیں۔  2016 میںہونے والی خون ریزی اور مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ظلم و جبر پر عالمی برادری ، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں اور خاص طور پر مسلم ممالک کے سربراہان کے مایوس کن رویے سے نا خوش ہیں۔ یہ کہانی نئی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے المیے اور باہمی اختلاف ، ختم ہوتا بھائی چارہ اور عالمی دنیا میں اسلام و مسلمانوں کے مسائل کے حل کی طویل عرصے سے کوئی کرن نظرنہیں آرہی ہے‘‘ ۔ اس نے اپنی آنکھوں کی گیلی پلکوںکو صاف کیا اور بولا:’’  آج میانمار کے پنا ہ گزین کیمپوں میں ہزاروں میانماری مسلمانوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھے ہیں۔ ان کی آنکھیں خیرہ ہوئی ہیں۔ لاکھوں میانماری مسلمان فوج کے ملک میں ایمرجنسی کے اقدام کو سراہ رہے ہیں۔ جب میانمار کی فوج کی طرف سے حکمراں جماعت کہ جس کی سربراہ آنگ سانگ سوچی ہیں کا تختہ الٹنے کی خبر ایک فروری کی صبح عالمی میڈیا پر آئی تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے دیکھا جا سکتا تھاکہ کس طرح سے مسلمانوں کی قاتل سوچی اپنی جان کے لیے فوج کے آگے بے بس تھی۔ اسی فوج کے سامنے جس کے دفاع کی خاطر اس نے عالمی پلیٹ فارم پر مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو جعلی اور جھوٹا قرار دیا تھا۔ آج اسی ملک کی فوج نے اس کو اپنے ملک میں قید وبند کی صعوبتوں میں جاپھینکا ہے‘‘۔ ہم نے دیکھا کہ  ملک کے کئی شہروں میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعدفوجی دستوں نے پورے ملک کاکنٹرول سنبھال رکھا ہے ۔ آنگ سانگ سوچی کی جماعت کو فوج کی طرف سے الیکشن میں دو نمبری کرنے کے الزام کا سامنا تھا۔ جس کے باعث انہوں نے اپنی روش کو برقرار رکھا اور اپنی غیر آئینی پالیسیوں سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب آنگ سانگ سوچی کو فوج کی طرف سے انتباہی پیغام نہ ملا ہوکہ وہ میانماری آئین کی خلاف مصروف عمل ہیں۔ اس سے پہلے بھی آنگ سانگ سوچی کو عالمی جریدوں میں اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہیں روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم پر بات چیت کرنے اور میانمار میں بڈھسٹوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں اپنے ملک کی نمائندگی کی دعوت دی گئی تھی۔ تاہم روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے ان کے اور یورپی یونین کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تھے ۔ برسلزشہر میں ایک تقریب کے دوران سْوچی نے یورپی یونین کی خارجہ امورکے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ میانمار ایسا کوئی تحقیقاتی مشن بھیجنے کے فیصلے سے متفق نہیں ہے، جس میں یہ دکھایاگیا ہوکہ میانمار میں مسلمانوں کوانسانی حقوق کے خلاف برتاؤ کا سامنا ہے۔ سوچی کے اس بیان کے بعد میانمار میں لاکھوں مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی اور وہ اپنے مستقبل میں میانمارمیںاپنے حقوق  کے حوالے سے پریشانی کا شکار تھے۔ اس کے بعدیورپی یونین کی اعلیٰ ترین سفارت کار’’ موگرینی ‘‘نے سْوچی کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے سوچی پر زور دیا تھا کہ وہ میانمار میں اس مشن کے ساتھ تعاون کرے۔ موگرینی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے مشن کے ساتھ تعاون کرنے سے ان الزامات سے متعلق پائی جانے والی بے یقینی ختم ہو جائے گی کہ روہنگیا مسلمانوں کو قتل، عصمت دری اور ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا تھا کہ میانمار کی راخائین نامی ریاست میں قتل، آبرو ریزی اور تشدد کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک مشن روانہ کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں میانمار کے حوالے سے یہ قرار داد پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ میانمار میں انسانی حقوق کے حوالے سے تحقیقات کرے کہ میانمار میں مسلمانوں کے خلاف غیرانسانی سلوک کے سنگین جرائم کیے جارہے ہیں۔ سوچی کی غیر معمولی حیثیت کے اعتراف میں نوبل انعام بھی دیا گیا تھا مگر اس نے اپنی تمام تر صلاحیت مسلمانوں کے خلاف استعمال کی اور خاص طور مسلمانوں کے کی پوزیشن کو غیر مستحکم کیا۔ تمام میانماری باشندوں کو یکساں مساوی زندگی کے حقوق دینے کے حیران کن طور انسانی حقوق کے برعکس کام کیے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ آج نوبل امن کی انعام یافتہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن