چین کا مشرق وسطی میں بڑھتا اثرورسوخ

چین کا مشرق وسطی میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور اعتماد حیران کن ہے۔ چین امریکہ کو ہر محاذ پر ٹکر دیتے ہوئے ترقی اور برتری کا ہر ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ چین ترقی کررہا ہے اور عالمی سطح پر بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ چین کے لوگوں نے قومی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ کی چین کے ساتھ محاذ آرائی کے اثرات عالمی نظام پر مرتب ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ دونوں عالمی طاقتیں چین اور امریکہ جن امور کی وجہ سے محاذ آرائی کو فروغ دے رہی ہیں ان میں تجارتی لڑائیاں، کورونا وائرس، ہانگ کانگ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں اہم امر یہ ہے کہ خلیجی حکمرانوں میں چینی اثرورسوخ بڑھ رہا ہے اور چین مختلف ممالک میں اسٹریجک بندرگاہیں تعمیر کر کے امریکہ کوخطے میں چیلنج کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے۔ اس ضمن میں چین ایران کے ساتھ مل کر امریکہ کی اجارہ داری کو چیلنج کررہاہے۔ اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ چین نے مشرق وسطی میں اپنے اثرورسوخ کے ذریعے امریکی مفادات کے لئے سنگین خطرات پیدا کردیئے ہیں۔ مغرب آزاد مارکیٹ میں سرمایہ داری نظام عالمی معیشت کے لئے متعارف کرارہا ہے۔ واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تعلقات میں بڑی حد تک بگاڑ پیدا کیا۔ بھارت کے ساتھ مل کر سابق صدر نے چین سے خوفزدہ ہوکر عْجلت میں کچھ ایسے فیصلے کئے جو کہ امریکی معیشت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئے اہم امریہ ہے کہ اگر موجودہ امریکی صدرچین کے حوالے سے سابقہ پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھتے ہیں تو حالات میں سدھار کی بجائے مزید بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔ اہم امریہ ہے کہ چین اور امریکہ براہ راست ٹکرائو سے گریزاں ہیں۔ خلیج میں چینی سرمایہ کاری مسلسل بڑھ رہی ہے چین کے لئے مشرق  وسطی میں وسیع ترکردار ادا کرنے کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے بھی چین جگہ بنا رہا ہے۔ چین ایران کو اسلحہ فروخت کر کے عسکری سسٹم خریدے گا۔ چین ایک ترقی یافتہ طاقتور ملک ہے۔ سی پیک منصوبہ چین کی معاشی ترقی کا واضح ثبوت 
ہے۔ اپنی مثبت پالیسیوں ہی کی وجہ سے چین دن بہ دن ترقی کی منازل طے کرتا چلا جارہا ہے۔ امریکہ کی ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیاں عائد کرنا ایسے اقدامات تھے جس سے خطے میں جاری کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ امریکہ کا چین کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کرنا تھا۔ نیز خام مال کی قیمتوں میں اضافہ کر کے چین کو احتجاج کا موقع فراہم کیا گیا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوا بلکہ تنائو نے شدت اختیار کرلی۔ غور طلب امر یہ ہے کہ سیاسی تنائو امریکہ اور چین کے لئے اس لئے بھی مفید امر نہیں ہے کیونکہ امریکہ اور چین ایک دوسرے کے لئے تجارتی منڈیاں ہیں۔ واضح رہے کہ امریکہ کا یہ خیال ہے کہ چین کے ابھرتے ہوئے عالمی سیاسی اور معاشی کردار کو روکنے کے لئے بھارت سے گٹھ جوڑ فائدہ مند ہے یعنی بھارت امریکہ کا انتہائی اہم شراکت دار ثابت ہوسکتا ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ سابق صدر  ٹرمپ کے دور اقتدار میں بھارت امریکہ کی قربتوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ بھارت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات آگے بڑھے نیز بھارت کیلئے امریکی ٹیکنالوجی کے دروازے بھی کْھلے۔ امریکہ اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے مطلوبہ ملک سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہدف حاصل کرتا ہے۔ امریکہ میں انتخابات کے بعد چہرے تو تبدیل ہوجاتے ہیں تاہم پالیسیاں تبدیل کرنا کسی بھی صدر کے لئے ناممکن ہے۔ ماہرین کی نظریں اب بھارت اور امریکہ کے مستقبل کے تعلقات پر مرکوز ہیں۔ جوں جوں بھارت اور چین کے باہمی تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بھارت ان ممالک کے قریب ہونے کی کوششوں میں مصروف ہے جو چین کی ترقی و طاقت سے خائف ہیں۔ اہم امر یہ ہے کہ چین کا مشرق وسطی میں مثبت کردار اور اثرورسوخ امریکہ کیلئے دردِسر ہے۔ اس اہم امر کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین نا صرف اس خطے کی بلکہ دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی معاشی قوت کا روپ دھار چکا ہے اور امریکہ کے بس کی بات نہیں چین کی عسکری اور معاشی قوت کو روکنے کے لئے امریکہ کو بھارت کی اشد ضرورت پڑے گی۔ امریکہ کی پوری کوشش یہی ہوگی کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر جوبائیڈن کی یہی حکمت عملی ہوگی کہ خطے میں طاقت کے توازن کو چین کے حق میں نہ جانے دیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن